الشباب کا نیا سربراہ، احمد عمر ابو عبیدہ صومالی دہشت گرد گروپ کے پرانے عہدے دار ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اُن میں اُن کے پیش رو، احمد گودان کی قیادت کی صلاحیتیں موجود نہ ہوں، جو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا۔
گذشتہ ہفتے تک، عبیدہ، گودان کے ایک اعلیٰ مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں، جنھوں نے تقریباً سات برسوں تک الشباب کی قیادت کی اور گروپ کا القاعدہ کے ساتھ باضابطہ اتحاد کیا۔
رولینڈ مارشل، فرانس کے ’نیشنل سینٹر فور سائنٹیفک رسرچ ‘ سے وابستہ ہیں اور الشباب کے ایک ماہر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عبیدہ نے الشباب کے اعلیٰ عہدے پر کام کیا ہے۔ لیکن، اُن میں گودان کی سی صلاحیت نہیں ہے۔
احمد محمد محمد الشباب کے نئےنامزد سربراہ کو اُس وقت سے جانتے ہیں جب وہ 2000ء کے اوائل میں کسمایو کی بندگاہ والے شہر میں قائم ایک مدرسے میں قرآن کی تدریس سے وابستہ تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ابو عبیدہ مشکل اور تیز طبیعت کا مالک فرد ہے، جو ’تکفیری‘ نامی نظریے میں یقین رکھتے ہیں، جس قسم کے کچے عقیدے کے مسلمان کو سزا کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔
الشباب کے نئے سربراہ کی عمر 40 کے اوائل کے پیٹے میں ہے۔ وہ ایتھیوپیا کے صومالی نسل کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ لیکن، کم از کم 1990ء کے اوائل سے صومالیہ ہی میں رہتے رہے ہیں۔
اُن کے پرانے دوست بتاتے ہیں کہ اُس وقت اُنھوں نے الاتحاد الاسلامی سے تربیت حاصل کی، جو صومالیہ کی سلفیوں کی ایک تنظیم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نےالاتحاد کے احباب کی مدد سے، 2007ء میں الشباب میں شمولیت اختیار کی، جو اسلامی عدالتوں کی یونین کا ایک حصہ تھے، جس گروپ نے تھوڑی عرصے تک جنوبی صومالیہ پر حکمرانی کی تھی۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران اُنھوں نے الشباب میں مختلف عہدوں پر کام کیا، جس کے پاس صومالیہ کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول تھا، اور جس نے آبادی پر اسلامی شریعہ کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کیا۔
سنہ 2008ء سے 2009ء تک، وہ نشیبی جوبا خطے میں الشباب کے معاون گورنر رہ چکے ہیں۔ بعدازاں، وہ نومبر 2013ء تک بے اور بکول کے خطوں کے گونر تھے، جس کے بعد اُنھیں ترقی دے کر گودانی کا مشیر بنایا گیا۔
حالیہ دِنوں تک، الشباب کے داخلی مکتب میں ایک نئے عہدے پر فائز رہے، اور یوں وہ گروپ کے داخلی معاملات کے سربراہ مقرر ہوئے۔
وہ جو اُنھیں جانتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ وہ ایک سخت گیر شخص ہے، جو ایک عرصے تک گودانی کا وفادار ساتھی رہ چکا ہے۔ اس قسم کی قربت کی بدولت اُن کی جان بخشی ہوئی جب 2013ء میں اُن کے متعدد حریفوں کو ہلاک کیا گیا۔