مادے کے بنیادی ذرات پر تحقیق کرنے والے دو سائنس دانوں کو طبعیات کے شعبے میں 2015ء کے 'نوبیل ایوارڈ' کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
ایوارڈ کا فیصلہ کرنے والی نوبیل کمیٹی نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تاکاکی کجیتا اور آرتھر مک ڈونالڈ کی تحقیق کے نتیجے میں دنیا کو مادے کے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق نئی آگہی ملی ہے۔
تاکی کجیتا جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو سے منسلک ہیں جب کہ ان کے ساتھی مک ڈونالڈ کا تعلق کینیڈا کی کوئنز یونیورسٹی سے ہے۔
مادے کے ذرات پر تحقیق سے متعلق طبعیات کی شاخ 'پارٹیکل فزکس' کے نظریے 'اسٹینڈرڈ ماڈل' کے مطابق ایٹم میں تین طرح کے نیوٹرینوز پائے جاتے ہیں۔
سورج کی کرنوں کے ذریعے زمین تک پہنچنے والے نیوٹرینوز کی تعداد کے تعین کے لیے ہونے والے تجربات کے دوران سائنس دانوں پر انکشاف ہوا تھا کہ شمار کیے جانے والے لگ بھگ دو تہائی نیوٹرینوز اس سفر کے دوران غائب ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر کجیتا اور مک ڈونالڈ کی تحقیق نے سائنس دانوں کے اس گمان کی تصدیق کردی ہے کہ سورج سے زمین تک اپنے سفر کے دوران بیشتر نیوٹرینوز اپنی ہیئت تبدیل کرلیتے ہیں جس سے ثابت ہوا تھا کہ یہ ذرات کمیت رکھتے ہیں۔
نوبیل کمیٹی کے مطابق دونوں سائنس دانوں کی اس تحقیق کےنتیجے میں فزکس کے 'اسٹینڈرڈ ماڈل' نامی مفروضے میں پہلی واضح دراڑ پڑی ہے جو اس شعبے میں نئی تحقیقات کے در وا کرے گی۔
کمیٹی کے بیان کے مطابق دونوں سائنس دانوں کی تحقیق نے واضح کیا ہے کہ 'اسٹینڈر ماڈل' کائنات کے بنیادی ذرات کے تعامل سے متعلق مکمل معلومات فراہم نہیں کرتا۔
ایوارڈ پانے والے دونوں سائنس دانوں کو میڈل اور سند کے علاوہ نو لاکھ 63 ہزار ڈالر کے مساوی رقم بھی ملے گی۔
اس سے قبل پیر کو نوبیل کمیٹی نے طب کے شعبے میں 2015ء کے نوبیل انعام کے فاتحین کا اعلان کیا تھا۔
رواں سال یہ ایوارڈ طفیلی جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج دریافت کرنے پر آئرلینڈ کے ولیم کیمپ بیل اور جاپان کے ستوشی اومارا اور ملیریا سے مدافعت کی دوا دریافت کرنے والی چین کی ٹو یویو کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔