رسائی کے لنکس

اسرائیل کی غزہ میں امداد کے لیے جنگ میں وقفے پر آمادگی، سیز فائر سے پھر انکار


اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا ہے۔ (فائل فوٹؐ)
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا ہے۔ (فائل فوٹؐ)

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے غزہ میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری جنگ کو روکنے سے ایک بار پھر انکار کیا ہے البتہ یرغمالیوں کی رہائی اور امداد کی فراہمی کے لیے لڑائی کچھ وقت کے لئےروکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

امریکہ کے نشریاتی ادارے ’اے بی سی نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک یرغمالیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں کسی انفرادی یرغمالی کی رہائی اور امداد کی فراہمی کے لیے جنگ میں ’کچھ وقفے‘ کا سوال ہے تو اسرائیل پہلے بھی ایسا کرتا رہا ہے اور اب بھی ایسا کرے گا۔ لیکن مکمل جنگ بندی نہیں ہوگی۔

ان کے بقول جنگ بندی کے سوال پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن خود کہہ چکے ہیں کہ مکمل جنگ بندی حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو گی جس کو حماس اپنی فتح سمجھے گی۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ جنگ بندی اسرائیل کے یرغمال بنائے گئے شہریوں کو واپس لانے میں رکاوٹ بنے گی۔ حماس کے جرائم پیشہ افراد پر صرف عسکری کارروائی سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو ایک ماہ ہو چکا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے طبی حکام کے مطابق لگ بھگ 10 ہزار فلسطینیوں کی موت ہو چکی ہے جب کہ 24 ہزار زخمی ہیں۔ مغربی کنارے میں بھی اب تک 140 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

اس جنگ کی وجہ حماس کا سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ بنا تھا جس میں غیر ملکیوں سمیت 1400 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ہمراہ غزہ کی پٹی لے گئے تھے۔

اسرائیل کی یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے غزہ کی پٹی میں جاری زمینی کارروائی میں بھی شدت آگئی ہے۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی بمباری میں کچھ یرغمالی مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے کی حامی بھرتی ہے تو اس مقصد کے لیے جنگ بندی ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول اسرائیلی حکومت کو اس اقدام کا انتظار ہے لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔

حماس کے پاس موجود یرغمالیوں کی موجودگی کے مقام سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس خفیہ معلومات موجود ہیں۔ لیکن معلومات کو سامنے لانا وہ دانش مندی نہیں سمجھتے کیوں کہ اس سے حماس کی مدد ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جب تک زمینی کارروائی کا آغاز نہیں کیا تھا اس وقت تک حماس پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ نہیں تھا لیکن اب ان پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

اسرائیل کی زمینی کارروائی: کیا حماس ختم ہو سکے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:13 0:00

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق انٹرویو کے دوران نیتن یاہو نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ جنگ کے بعد غزہ میں امن عامہ کے لیے اسرائیل کو غیر معینہ مدت کے لیے وہاں رکنا بھی پڑ سکتا ہے۔

غزہ پر حملے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل نے جنگ کے دو مقاصد، حماس کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی بتائے تھے۔

ایران اور حزب اللہ کی جنگ میں شمولیت سے متعلق نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگر وہ جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو اس کا شدت سے جواب دیا جائے گا۔ لیکن امید ہے کہ وہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔

غزہ میں اسرائیل کی بمباری میں عام شہریوں اور بچوں کی بڑی تعداد میں اموات پر انہوں نے کہا کہ "کسی بھی عام شہری کی موت سانحہ ہے۔ اسرائیل ایک ایسے دشمن کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جو انتہائی بے رحم ہے اور وہ اپنے ہی عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے فلسطینی آبادی کو کہا ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقے سے انخلا کرے۔"

حماس کے اچانک اور غیر متوقع حملے سے متعلق نیتن یاہو نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ شہریوں کی حفاظت کرے۔ لیکن اس دن ایسا نہ ہو سکا۔ البتہ غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد اس کی تحقیقات ہوں گی۔

بن یامین نیتن یاہو نے امریکہ کی حکومت اور شہریوں کی اسرائیل کی حمایت پر اظہارِ تشکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اسرائیل کے بہترین دوست اور حامی ہیں اور وہ انہیں گزشتہ چار دہائیوں سے جانتے ہیں۔

امریکہ حماس کو دہشت گردی تنظیم سمجھتا ہے جس نے غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال بنا رکھا ہے۔ ان سرنگوں کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی تنظیم چلاتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے مختلف اشیا بھی غزہ میں لائی جاتی ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یرغمالیوں کو بھی انہیں سرنگوں میں رکھا گیا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کے شمالی علاقوں سے فلسطینیوں کے انخلا کی اپیل کی ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جسے اس وقت اسرائیلی فورسز سب سے زیادہ نشانہ بنا رہی ہیں۔

اسرائیل امریکہ کی اس تجویز کو مسترد کر چکا ہے جس میں اسے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر بمباری روکنے کے لیے کہا گیا تھا کیوں کہ مسلسل حملوں میں اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ غزہ کی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے اور ایک ماہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔

اس خبر میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG