رسائی کے لنکس

بھارت میری حکومت گرانے کی سازش کر رہا ہے، نیپالی وزیر اعظم کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

نیپال کے وزیرِ اعظم کے پی شرما اولی نے نئی دہلی پر الزام عائد کیا ہے کہ نیپال کا نیا نقشہ منظور ہونے کے انتقام کے لیے بھارتی نیپال کی بعض سیاسی طاقتوں کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہا ہے۔

کے پی شرما اولی نے یہ الزام ایک تقریب سے خطاب کے دوران عائد کیا۔ نیپال کے وزیرِ اعظم کے اتوار کو کیے جانے والے اس خطاب پر بھارت کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

کے پی شرما اولی نے مزید کہا کہ دانشوروں کی سطح پر جو تبادلہ خیال ہو رہا ہے اور نئی دہلی سے جو میڈیا رپورٹس آ رہی ہیں اور اسی طرح کٹھمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کی جو سرگرمیاں ہیں اور مختلف ہوٹلوں میں جو اجلاس ہو رہے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح لوگ انہیں ہٹانے کی کُھل کر کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے بقول نیپال کے سیاسی رہنماؤں کے ایک طبقے نے اس سلسلے میں غیر ملکی طاقتوں سے ہاتھ ملا لیا ہے۔

نیپال کے وزیرِ اعظم کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کرونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں مبینہ ناکامی اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی سمیت دیگر معاملات کی وجہ سے کے پی شرما اولی کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

حکمران جماعت کے شریک چیئرمین پشپ دہل کمل پرچنڈ ان کے دو عہدوں پر فائز ہونے کے خلاف ہیں جب کہ ان سے استعفیٰ بھی مانگا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ کے پی شرما اولی وزیرِ اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔

یاد رہے کہ انہوں نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ سے ملک کا ایک نیا سیاسی نقشہ منظور کرایا ہے جس میں تین متنازع علاقوں لیپو لیکھ، کالا پانی او رلمپیا دھرا کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ ان علاقوں پر بھارت بھی دعویٰ کرتا ہے۔

بھارت اور نیپال میں تاریخی دوستانہ رشتے رہے ہیں۔ نیپال کی معیشت بہت چھوٹی ہے اور اس کا کافی انحصار بھارت پر ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں اور نیپال ایک طرح سے بھارت کے مخالف ممالک کی صف میں شامل ہو رہا ہے۔

نیپال کے امور کی ماہر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے وابستہ سنگیتا تھپلیال اس سے اتفاق نہیں کرتیں بلکہ وہ اسے ملک کی اندرونی سیاست کا شاخسانہ سمجھتی ہیں۔

سنگیتا تھپلیال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیپال بھارت کا مخالف نہیں ہوا بلکہ وزیرِ اعظم کے پی شرما اولی کی پالیسی بھارت کے خلاف ہے۔

ان کے بقول وہ قوم پرستی کا ایشو اٹھا کر اندرونِ ملک اپنے مخالفین کو جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سنگیتا تھپلیال نے کہا کہ ان کی اپنی جماعت کے اندر سے ان کی مخالفت ہو رہی ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے بھی کرونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر ان سے سوال کیا جا رہا ہے اور ان کی حکومت کی مبینہ ناکامی پر بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ جب کہ عوام بھی سڑکوں پر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے پہلے انہوں نے ایک نیا نقشہ منظور کرایا جو قوم پرستی کا ایسا ایشو تھا کہ حزبِ اختلاف کی کوئی بھی جماعت ان کے خلاف نہیں بول سکی۔ اس کے باوجود لوگ اب بھی سڑک پر ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پہلی بار بھارت پر الزام نہیں لگا رہے۔ 2016 میں جب ان کی حکومت گری تھی تو اس وقت بھی انہوں نے کہا تھا کہ باہر کی طاقتوں نے انہیں ہٹایا ہے۔

اُدھر بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیپال کے بھارت مخالف موقف کے پس پشت چین کا ہاتھ ہے۔ کھٹمنڈو اور بیجنگ کی قربت بڑھتی جا رہی ہے۔

اس پر سنگیتا تھپلیال کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیپال میں چین اثر بڑھ رہا ہے۔ دونوں ممالک میں بنیادی ڈھانچے اور ڈیم کے سلسلے میں معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں لیکن ابھی وہ منصوبے بن نہیں رہے۔

ان کے مطابق چین کی مصنوعات نیپال آنے لگی ہیں۔ تاہم اس میں کافی دشواریاں ہیں کیوں کہ چین نیپال سے بہت دور ہے۔ چین سے نیپال میں اتنی آسانی سے مصنوعات نہیں آسکتیں جیسے کہ بھارت سے جاتی ہیں۔

سنگیتا کہتی ہیں کہ نیپال کی معیشت بھارت سے بہت زیادہ مربوط ہے۔ نمک سے لے کر ہر چیز بھارت سے جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ چینی سرگرمیوں کا اثر نیپال کی معیشت پر پڑ رہا ہے، درست نہیں ہے۔ ابھی نیپال کی معیشت پر چین کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

بھارت اور نیپال کے دو طرفہ تعلقات اس وقت کشیدہ ہوئے تھے جب بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ ماہ 8 مئی کو لیپو لیکھ درے کو اتراکھنڈ میں دھار چولہ سے ملانے والی 80 کلو میٹر طویل سڑک کا افتتاح کیا تھا۔

نیپال نے اس پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ سڑک نیپال کے علاقے سے ہو کر گزرتی ہے۔ بھارت نے اس کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

اُدھر جب نیپال کی پارلیمنٹ نے نیا نقشہ منظور کیا تو بھارت نے اسے نیپال کی جانب سے اپنے علاقے کی مصنوعی توسیع قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا یہ قدم ناقابلِ قبول ہے۔

دوسری جانب ہے بھارت نے نیپال کے ساتھ سرحد پر گشت بڑھا دی ہے۔

رپورٹس کے مطابق گشت خفیہ اداروں کی ان رپورٹس کے بعد بڑھائی گئی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ نیپال کے راستے بھارت میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG