دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہفتے کو پاکستان میں بھی معذوروں کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد اُن لوگوں کے بارے میں بہتر تفہیم کو فروغ دینا ہے جنہیں کسی معذوری کا سامنا ہے۔
اس موقع پر ملک بھر میں معذور افراد کے حقوق اور ان کی طرز زندگی کے بارے میں آگاہی کے لیے مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا۔
پاکستان میں معذور افراد کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ معذوری کا سامنا کرنے والے افراد بھی معاشرے کے لیے اتنے ہی مفید ہیں جس طرح دوسرے افراد۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی طرز زندگی کے بارے میں دوسرے افراد میں آگاہی ضروری ہے۔
معذور افراد کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "سایہ" کے سربراہ عاصم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں منفی سماجی رویوں کی ایک بڑی وجہ معذوری کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔
" جب آگاہی ہو گی لوگوں کو پتہ چلے گا کہ معذوری کیا ہے۔ لوگوں کی معذوری کے بارے میں جو رائے ہے وہ طبی بنا پر قائم کی ہے کہ یہ لوگوں معذور ہیں، مریض ہیں بیمار ہیں اور کچھ عرصے میں ٹھیک ہو جائیں گے جب یہ جان جائیں گے کہ معذوری ایک مستقل طرز زندگی ہے، جو معذوری کا شکار افراد خود بھی اور معاشرے بھی اس کو قبول کریں گے تو پھر ان کے حقوق کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔"
عاصم ظفر نے کہا کہ اگر تعلیم، ٹرانسپورٹ اور بنیادی ڈھانچے میں مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تو معذوری کے شکار افراد بھی معاشرے میں صحت مند کردار ادا کر سکتے ہیں۔
" ہمارے تعلیمی نظام اور ٹرانسپورٹ کے نظام تک رسائی نہیں ہے اور نہ ہی بنیادی ڈھانچے تک رسائی ہے ان سب چیزوں کی وجہ سے (معاشرے میں معذور) لوگ کم نظر آتے ۔۔۔۔لیکن ایسے بہت سے افراد ہیں جو بڑی اچھی قابلیت کے ساتھ معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور معذوری کا شکار افراد نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔"
دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ و ہ معذور افراد کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مختلف طرح کے اقدام کر رہی ہیں۔
صدر ممنون حسین نے ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معذور افراد بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں بلاامتیاز مساوی مواقع کے مستحق ہیں۔
” یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو اس بات کا احساس ہے کہ آپ لوگ ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور آپ کی دیکھ بھال یا آپ کو آگے بڑھانا اور آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہم سب کا فرض ہے اور اس سلسلے میں ہم سب کو جو بھی پیش رفت ہو وہ کرنی چاہیئے۔"
صدر ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان نے 2011ء میں معذور افراد کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کی تھی اور ان کے بقول حکومت اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس کے تحت تجویز کیے گئے اقدامات پر کس حد تک عمل ہوا ہے اور مزید کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جنہیں کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا سامنا ہے۔ تاہم معذور افراد کے لے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جب تک ان افراد کے بارے میں قابل اعتماد اعدادوشمار موجود نہیں ہوں گے تو ان کے بارے میں مناسب پالیسیاں وضع نہیں کی جا سکتی ہیں۔