رسائی کے لنکس

سندھ میں بچوں کی نصف تعداد جسمانی نشوونما کے مسائل سے دوچار ہے، سروے


پاکستان کے غذائی سروے 2018 کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے جس میں صوبہ سندھ میں خواتین اور بچوں کی صحت سے متعلق صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

سروے کے مطابق صوبہ سندھ میں 5 سال یا اس سے کم عمر کے ہر 10 میں سے 2 بچے نامکمل جسمانی نشوونما کے مسئلے کا شکار ہیں اور صوبے کے 40 فیصد بچے کم وزن اور 5 فیصد وزن کی زیادتی کے پیچیدہ مسائل میں گھرے ہیں۔

ان نتائج کا اعلان رواں ہفتے کراچی میں ہونے والی ایک آگاہی تقریب کے دوران کیا گیا۔ سروے سندھ کے 18 ہزار 7 سو 68 گھروں سے حاصل کی گئی معلومات پر مشتمل ہے۔

سروے عالمی ادارہ صحت کے ذیلی ادارے یونیسف، حکومت سندھ، وفاقی وزارت صحت، آغا خان یونیورسٹی کراچی اور برطانوی حکومت کے تعاون سے مرتب کیا گیا۔

سروے میں 5 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں، نوبالغ بچوں اور بچیوں کے علاوہ بچے پیدا کرنے کی عمر کو پہنچنے والی خواتین کی غذائی صحت کا تعین کیا گیا ہے۔

سروے سے حاصل کردہ معلومات میں پینے کے صاف پانی تک رسائی، اس کے معیار، صحت و صفائی، غذائی تحفظ اور بچوں میں پائی جانے والی معذوری کا تعین ممکن بنایا گیا ہے۔

غذائی سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سدھ میں غذائی مسائل کا زیادہ تر شکار نو بالغ لڑکے اور لڑکیاں ہیں اور تقریباً 40 فیصد نو بالغ لڑکے و لڑکیاں غذائی کمی کا شکار ہیں۔

اس سروے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ پاکستان بھر میں 2 سے 5 سال کے 10 فیصد بچوں میں کسی نہ کسی بنیادی صلاحیت کا فقدان ہے۔ یعنی ملک بھر میں بچوں کی ایک بڑی تعداد فنکشنل معذوری کا شکار ہے۔

وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عزرا فضل پیچوہو کا کہنا ہے کہ سروے کے نتائج سے نا صرف اُن مسائل کے حل میں مدد ملے گی بلکہ مسائل کے حل کے لیے وسائل بھی مختص کرسکیں گے۔ مزید یہ کہ اس سے صوبائی غذائی لائحہ عمل میں بہتری لائی جاسکے گی۔

اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یونیسف کی چیف فیلڈ آفیسر کرسٹینا ہر جیولو نے کر کہا کہ یونیسیف اور اقوام متحدہ کے شراکت دار ادارے حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پُر عزم ہیں تاکہ ناقص غذا اور غذا کی کمی جیسے خطرناک مسائل میں کمی لائی جاسکے گی۔

بورڑ برائے منصوبہ بندی و ترقی حکومت سندھ کی چیئر پرسن ناہید درانی کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن کی کامیابی کے شواہد دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں میں غذائی کمی کے مسئلے کے کم خرچ مگر پُراثر حل کی ضرورت ہے تاکہ غذائی صورتحال کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG