رسائی کے لنکس

احمدیوں کے حقوق کی پامالی پر تشویش، قومی کمیشن کا احمدی جماعت کو تحفظ فراہم کرنے پر زور


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • حکومت مذہبی آزادی کے ضمن میں آئین کے آرٹیکل 20 کے مطابق ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی آزادی دے: قومی کمیشن
  • رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز تحریر و تقریر کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
  • حکومتی کمیشن نے کہا ہے کہ احمدیوں کے نام اور پتے الگ ووٹر لسٹ میں شامل ہونے سے احمدیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔
  • کمیشن کے ارکان نے گزشتہ سال 17 اور 18 ستمبر کو ربوہ کا دورہ کیا تھا۔
  • اقلیتوں کے معاملات میں مؤثر کارروائی کرنے کے لیے پولیس کی استعداد میں اضافہ کیا جائے: کمیشن کی سفارش
  • حکومتی سطح پر اِس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ مذہبی عقائد کی بنا پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے: ترجمان جماعتِ احمدیہ پاکستان

لاہور _ پاکستان میں انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے ملک میں احمدیوں کے حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ احمدی جماعت کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے حملوں، بدسلوکی، عبادت گاہوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی سمیت ریاستی سطح پر امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

قومی کمیشن کی رپورٹ 21 صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں جماعت احمدیہ کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ اسی طرح 2023 میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی مکمل تفصیل بیان کی گئی ہے۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس ایک خود مختار ادارہ ہے جس کے قیام کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2012 میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس ایکٹ کے تحت اس ادارے کے قیام کی منظوری دی تھی۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اسے جماعت احمدیہ کی جانب سے تحریری شکایات موصول ہوئیں جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔

کمیشن نے کہا کہ اس کے ارکان نے گزشتہ سال 17 اور 18 ستمبر کو ربوہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس دورے کا بنیادی مقصد جماعت احمدیہ کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کی شکایات کا جائزہ لینا تھا۔

رپورٹ کے ابتدائیہ میں کہا گیا ہے کہ وفد کو احمدیہ عبادت گاہوں اور قبرستانوں میں حملوں کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔

قومی کمیشن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احمدیہ کمیونٹی پاکستان میں سب سے زیادہ امتیازی اور متعصبانہ سلوک کا شکار ہے۔

جماعت احمدیہ کی جانب سے سال 2022 اور 2023 میں جو شکایات اور پٹیشن فائل کی گئیں رپورٹ میں ان کا بھی مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2023 میں احمدی عبادت گاہوں پر حملوں کی فہرست بھی شائع کی گئی ہے جس کے مطابق متعدد مقامات پر پولیس نے مینار مسمار کیے۔

قومی کمیشن نے احمدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر گزشتہ ہفتے جاری کردہ اپنی ایک پورٹ میں حکومت کو احمدیوں کے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے چند سفارشات پیش کی ہیں۔

کمیشن کی سفارشات

کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ حکومت مذہبی آزادی کے ضمن میں آئین کے آرٹیکل 20 کے مطابق ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی آزادی دے۔

قومی کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت تمام ممکنہ اقدامات کرے جس کے تحت تمام اقلیتوں بشمول احمدیوں کو بھی وہی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں جو دوسرے پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں اور احمدی کمیونٹی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

حکومتی کمیشن نے کہا ہے کہ احمدیوں کے نام اور پتے الگ ووٹر لسٹ میں شامل ہونے سے احمدیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔

سفارش کی گئی ہے کہ ان لسٹوں کے عوامی مقامات پر آویزاں ہونے سے احمدیہ کمیونٹی خطرے میں ہے۔ احمدیوں کے نام الگ ووٹر لسٹ کی بجائے اسی طرح جنرل ووٹر لسٹ میں شامل ہوں جس طرح دیگر اقلیتوں کے نام شامل ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے کہ حکومت کو احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں نفرت اور انتہا پسندی کی تلقین کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی ہونی چاہیے۔

وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جس کے تحت تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں احمدی طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔ تعلیمی شعبے میں جامع اصلاحات کی جائیں اور رواداری کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

کمیشن کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ حکومت احمدیوں پر حملہ کرنے والوں اور انہیں دھمکیاں دینے والوں کے خلاف بروقت اور غیر جانب دار قانونی کارروائی کرے اور اقلیتوں کے معاملات میں مؤثر کارروائی کرنے کے لیے پولیس کی استعداد میں اضافہ کیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی سطح پر ایک آگاہی مہم چلائی جائے جس میں رواداری اور دوسرے مذاہب کے عزت و احترام پر مبنی کلچر کو فروغ دیا جائے۔ حکومت مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز تحریر و تقریر کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

’کمیشن کی رپورٹ خوش آئند ہے‘

جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ اِس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ حکومتی سطح پر اِس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ مذہبی عقائد کی بنا پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

ترجمان جماعت احمدیہ کا کہنا تھا کہ قومی کمیشن کی سفارشات بہت مفید ہیں اور اگر حکومت اِن پر عمل کرے تو ملک میں روادی اور برادشت کو فروغ ملے گا۔ جس سے ملک بھر میں امن و امان کی فضا بہتر ہو گی۔

واضح رہے پاکستان میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی عبادت گاہوں اور قبروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں حالیہ برسوں میں اصافہ ہوا ہے۔

قومی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت عبادت گاہوں اور قبرستانوں کو نقصان پہنچانے اور بے حرمتی کرنے سے متعلق قانون پر عمل درآمد کرائے۔

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 297 کے تحت کسی بھی قبرستان، قبر یا تدفین سے متعلق کسی کو نقصان پہنچانا یا اُسے روکنا ایک جرم ہے۔ ایسا کرنے والے شخص کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان علماء کونسل کے رکن اور معروف عالم ڈاکٹر علامہ راغب نعیمی کے مطابق احمدی برادری سے تعلق رکھنے والوں کا معاملہ حساس ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ احمدی برادری پاکستان کے آئین کو اِس لیے تسلیم نہیں کرتی کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ 1974 میں ہونے والی آئینی ترمیم میں اُنہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے وہ اُس آئینی ترمیم کو نہیں مانتے۔ جس کے باعث یہ ایک حساس معاملہ ہے۔

علامہ راغب نعیمی نے کہا کہ دوسرے ممالک میں احمدی برادری یہ دعوٰی کرتی ہے کہ اُنہیں پاکستان میں حقوق نہیں دیے جا رہے۔ البتہ ریاست انہیں حقوق دے رہی ہے اور انہیں مزید حقوق بھی ملیں گے بشرطیکہ وہ پاکستان کے آئین کے مطابق خود کو تسلیم کرائیں۔

اِس سے قبل پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ برائے 24-2023 میں کہا تھا کہ پاکستان میں مذہبی عقائد کی بنا پر لوگوں کے انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔

ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ احمدیہ عقائد سے تعلق رکھنے والی 35 عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا جب کہ مذہبی عقائد کی بناء پر 21 احمدیوں کو حراست میں لیا گیا۔

گزشتہ ماہ امریکہ کے دفترِ خارجہ نے بھی انسانی حقوق سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان میں بھی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سمیت دیگر مسائل کا ذکر کیا تھا۔ تاہم پاکستان نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG