رسائی کے لنکس

چین کے سابق جاسوس کا خفیہ نیٹ ورک پر بیرونِ ملک مقیم مخالفین کو اغوا کرنے کا الزام


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

  • سابق جاسوس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے اپنے ہدف کا اعتماد حاصل کرتے تھے اور پھر انہیں ایسے ممالک پہنچاتے تھے جہاں سے با آسانی اغوا کرکے انہیں چین واپس لے جایا جا سکے۔
  • چین کے سابق خفیہ ایجنٹ نے آسٹریلیا کے نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے خفیہ نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔
  • تجزیہ کاروں کے مطابق بیجنگ سمندر پار مقیم چینیوں میں بھی اختلاف اور تنقید کی آوازیں دبانا چاہتا ہے۔


آسٹریلیا کے ایک سرکاری نشریاتی ادارے کی تحقیقی رپورٹ میں چین کی خفیہ پولیس سروس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مخالفین کا تعاقب کرکے انہیں نشانہ بناتی ہے۔

آسٹریلیا میں مقیم ایک سابق چین سفیر نے آسٹریلیا کے سرکاری نشریاتی آسٹریلین براڈکاسٹنگ کور (اے بی سی) کے پروگرام ’فور کارنرز‘ میں بتایا کہ چین کی خفیہ سروس گزشتہ برس تک سڈنی میں بھی فعال رہی ہے۔

پروگرام میں آنے والے جاسوس کی شناخت ’ایرک‘ بتائی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں دھوکہ دہی اور اغوا کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں کئی تفصیلات بتائی ہیں۔

سابق چینی ایجنٹ نے اے بی سی کو بتایا ہے کہ بیجنگ میں خفیہ پولیس کس طرح انہیں بھارت، تھائی لینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت بیرونِ ملک مقیم مخالفین اور ناقدین کو نشانہ بنانے کے احکامات جاری کرتی تھی۔

ایرک بتاتے ہیں کہ وہ پہلے ان کا اعتماد حاصل کرتے تھے اور پھر انہیں ایسے ممالک پہنچاتے تھے جہاں سے انہیں بہ آسانی اغوا کرکے چین واپس لے جایا جاسکے۔

انہوں نے فور کارنرز پروگروم کے تفتیشی صحافیوں کو بتایا کہ وہ گزشتہ برس فرار ہو کر آسٹریلیا آئے ہیں۔

آسٹریلیا کی مقامی خفیہ ایجنسی نے تاحال چین کے مبینہ جاسوسی نیٹ ورک کے بارے میں تفصیلات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ایرک کا کہنا ہے کہ وہ 2008 سے 2023 کے دوران چین کی فیڈرل پولیس اور پبلک سیکیورٹی کی وزارت کے تحت سیکیورٹی ایجنسی کے لیے انڈر کور ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔

وہ ایک خصوصی ڈویژن کے لیے کام کرتے تھے جسے پولیٹیکل سیکیورٹی بیورو یا فرسٹ بیورو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ڈویژن ایسے لوگوں کو نشانہ بناتا جنہیں چینی ریاست اپنا ’دشمن‘ قرار دیتی ہے۔ مبینہ طور پر اس کا ایک نیٹ ورک گزشتہ برس تک کام کرتا رہا ہے۔

سابق چینی جاسوس نے اے بی سی کو بتایا کہ وہ سچ سامنے لانے کے لیے یہ سب تفصیلات بتارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو اس خفیہ دنیا کے بارے میں معلومات کا حق حاصل ہے۔ میں نے چائنیز پولیٹیکل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے لیے 15 برس کام کیا ہے۔ آج بھی یہ چینی حکومت کا تاریک ترین محکمہ ہے۔‘‘

اے بی سی کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب چین کے خفیہ ادارے کے کسی سابق اہل کار نے اس طرح سب کے سامنے لب کشائی کی ہے۔ اے بی سی نے سابق جاسوس کی سیکیورٹی کے پیش نظر ان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔

امریکہ میں قائم دفاعی پالیسی پر تحقیق کرنے والی ایک قدامت پسند تنظیم جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن سے وابستہ تجزیہ کار پیٹر میٹس کا کہنا ہے کہ بیجنگ سمندر پار مقیم چینیوں میں بھی اختلاف اور تنقید کی آوازیں دبانا چاہتا ہے۔

اے بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مخالفین کو خاموش کرانے اور سیاسی مخالفین کے نیٹ ورکس کا سراغ لگانے میں پولیٹیکل پروٹیکشن بیورو کا کردار رہا ہے۔

آسٹریلیا کے نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی سینکڑوں خفیہ دستاویزات دیکھی ہیں جو ایرک کے الزامات کو تقویت دیتی ہیں۔

اے بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے اندر چین کرپشن کے خلاف اپنی مہم میں 12 ہزار مبینہ مفرور افراد کو ملک واپس لے کر آیا ہے۔

آسٹریلیا میں بنائی گئی اس ڈاکیومینٹری پر تاحال چین نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اسی طرح آسٹریلین سیکیورٹی انٹیلی جینس آرگنائزیشن (اے ایس آئی او) نے بھی اس معاملے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG