پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ممبئی حملوں سے متعلق اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سچ بات کہتے رہیں گے چاہے انھیں کچھ بھی برداشت کرنا پڑے۔
گزشتہ ہفتے انگریزی روزنامے 'ڈان' کو دیے گئے ایک انٹرویو کی وجہ سے نواز شریف کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور حزبِ مخالف کی جماعتیں نواز شریف کے بیان کو بظاہر بھارتی مؤقف کی تائید سے تعبیر کر رہی ہے۔
لیکن پیر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ "کوئی یہ بتائے میں نے کون سی غلط بات کی ہے؟"
انھوں نے اخبار میں اپنے انٹرویو کا وہ حصہ بھی صحافیوں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ماضی میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف، سابق جنرل محمود درانی اور سابق وزیرِ داخلہ رحمن ملک بھی اسی مؤقف کی تائید کر چکے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم نے انٹرویو میں بھارتی شہر ممبئی میں نومبر 2008ء میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک کیوں مکمل نہیں ہو سکی؟ انہوں نے کہا تھا کہ کیا پاکستان کو غیر ریاستی عناصر کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ سرحد پار ممبئی جا کر 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟
اس بیان پر بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ کہہ کر خوب بحت ہوئی کہ سابق پاکستانی وزیرِ اعظم کا بیان بھارتی موقف کی تائید ہے اور پاکستان ممبئی حملے سے متعلق مقدمے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہا۔
تاہم پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں نواز شریف سے جب یہ پوچھا گیا کہ اسلام آباد کا مؤقف تو یہ ہے کہ اس حملے سے متعلق بھارت کی طرف سے شواہد اور تعاون فراہم نہ کرنے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے، تو اس پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ "ہمارے پاس بھی شواہد بہت ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی 50 ہزار قربانیوں کے باوجود دنیا اس کے بیانیے کو کیوں نہیں سن رہی اور اگر وہ سوال کرتے ہیں تو انھیں غدار کہا جا رہا ہے۔
"کیا وہ محب وطن ہیں جنہوں نے ججز کو دفاتر سے نکال باہر کیا؟ مجھے غدار کہا جا رہا ہے۔ یہ کہا نہیں کہلوایا جا رہا ہے۔"
قبل ازیں نواز شریف کے بیان پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ترجمان کے علاوہ جماعت کے صدر شہباز شریف کی طرف سے بھی کہا گیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں سابق وزیرِ اعظم کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔
نواز شریف کے بیان سے کھڑے ہوئے والے تنازع کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیر کو ملک کی قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں نواز شریف کے بیان اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔