رسائی کے لنکس

مسئلہ کشمیر، نواز شریف کی بان کی مون سے بات چیت


فائل
فائل

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ 1999ء میں جب ان کی واجپائی سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا، تو وہ دونوں ممالک کے لئے معاملات طے کرنے کا بہترین موقع تھا۔ 'لیکن، پھر اس کے بعد کیا ہوا، دنیا نے دیکھا۔ لیکن، میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا'

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون پر 'دو ٹوک انداز سے' واضح کر دیا ہے کہ 'اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر پر اپنی قرارداد پر عملدرآمد کرانا ہوگا'۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد، پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بان کی مون سے کھل کر بات ہوئی ہے کہ یہ قرارداد پاکستان نے نہیں بلکہ سلامتی کونسل نے منظور کی تھی، جس پر عملدرآمد بھی سلامتی کونسل پر فرض ہے۔

بقول اُن کے، 'اسی لئے، ہم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں سلامتی کونسل کو زیادہ موثر بنانے کی تجویز دی ہے'۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 1999ء میں جب ان کی بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا، تو وہ دونوں ممالک کے لئے معاملات طے کرنے کا 'بہترین موقع تھا'۔

اُنھوں نے مزید کہا: 'لیکن، پھر اُس کے بعد کیا ہوا، دنیا نے دیکھا۔ لیکن، میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہم نے دوریاں ختم کرنے کے لئے بھارت کو ٹھوس تجاویز دی ہیں، جن کا دور رس فائدہ خود بھارت کو بھی ہوگا اور پاکستان اور کشمیریوں کو بھی۔ کشمیر کے متنازعہ علاقے سے افواج کو واپس بلانے میں اسے ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے'۔

ایک سوال پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ملالہ یوسف زئی کو واپس وطن مدعو کرنے کے لئے انتظامات کر رہا ہے، جلد اس بارے میں خبریں منظر عام پر آجائیں گی۔

محمد نواز شریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بہترین کارکردگی پر مستقبل مندوب ملیحہ لودھی، وزارت خارجہ کے حکام اور مقامی سفارتکاروں کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ یہ کانفرنس ہر لحاظ سے پاکستان کے لئے مفید رہی جس میں دنیا بھر کے سامنے پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملا اور کئی اہم رہنماوں سے خصوصی بات چیت بھی ہوئی۔

ایک سوال پر وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس بات پر مفاہمت ہے کہ اگر کسی کو شکایت ہوگی تو وہ براہ راست ٹیلی فون پر یا ملاقات میں اس بات کا اظہار کرے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ 'پشاور واقعہ میں حقائق بیان کئے گئے تھے۔ ہم توقع کریں گے کہ سرحد پار سے کارروائیاں کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہچایا جائے گا'۔

ایک اور سوال پر نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن، یہ ابھی حتمی نہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد رہے۔ میڈیا کے کچھ حصے تو پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن بعض اتنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اُنھوں نے کہا کہ 'ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا ہی انھیںاپنی ذمہ داری کا احساس دلائے'۔

XS
SM
MD
LG