اسد حسن
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان نے سیاسی راہنماؤں اور امریکہ میں مقیم ممتاز تجزیہ کار نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد سیاسی عمل کو کسی طرح کا خطرہ نظر نہیں آتا۔ ان کے بقول اس بات کے امکان اب نہیں ہیں کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کو بچانے کے لیے آئینی ترمیم پر کام کرے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر راہنما اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ رضا ربانی اداروں کے درمیان جس مذاکرے کی بات کر رہے ہیں وہ آئین میں ترامیم کے لیے میاں نواز شریف کے سیاسی اتحاد کے نعرے سے بہت مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی ایسے اقدام میں نواز لیگ کے ساتھ نہیں ہو گی۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف علی زر داری موجودہ سیاسی صورتحال پر بہت واضح ہیں، وہ نوازشریف کو بچانے کے لیے ان کی مدد کو نہیں آئیں گے۔ ان کے بقول سابق صدر نے ان کے ساتھ ملاقات میں واضح پیغام دیا ہے کہ پیپلز پارٹی عدالت کے فیصلے کا احترام کرے گی اور وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جو ملک کے آئین اور قانون کے مطابق نہ ہو۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور وہ چند ہزار لوگوں کو سڑکوں پر لا کر عدالت کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام نہیں بلکہ اداروں کی پختگی کا اظہار ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سینیئر راہنما سید ظفرعلی شاہ نے کہا کہ پاکستان نے 70 برسوں میں بڑا کٹھن سفر طے کیا ہے۔ بہت نشیب و فراز آئے ہیں۔ کبھی لگتا تھا کہ آمریت کا سفر نہیں رکے گا اور کبھی ایسے لمحات بھی آئے جب لگا کہ سول کردار آمریت کا دوسرا رخ ہیں، آمریت کے ہاتھ کے چمٹے ہیں۔ تاہم اب 70 برس بعد عدالت ایک عام آدمی کو نہیں اشرافیہ کو، حکومت کے چیف ایگزیکٹو کو سزا دینے کے قابل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جمہوری عمل جڑیں پکڑ رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی فوج کے سربراہ کی جانب سے ملک میں جمہوری نظام کے حمایت کے بیانات کو بھی سراہا اور کہا کہ ایسے میں ملک کے اندر فوجی مداخلت کے امکانات نہیں دیکھتے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان اور قانون دان فواد چوہدری نے بھی پروگرام جہاں رنگ میں شرکت کی اور کہا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو آئین میں کسی ایسی ترمیم کی حمایت کرتے نہیں دیکھتے جس کا مقصد نواز شریف کے لیے رعایات مقصود ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کی سرگرمیوں کا تعلق ان کی سیاست سے زیادہ نیب میں موجود مقدمات سے ہے ۔ دباؤ بڑھا کر یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ عدالت ان مقدمات کی نگرانی ختم کرے اور وہ دباؤ یا دیگر طریقوں سے ان مقدمات کے فیصلے اپنے حق میں حاصل کر سکیں۔
واشنگٹن میں مقیم ممتاز امریکی تجزیہ کار مارون وائن بام نے بھی اسی پروگرام میں پاکستان کی سیاست پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد سیاسی ہل چل ضرور ہے لیکن فوج ملک میں حکومت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہلچل آئندہ انتخابات تک جاری رہے گی اور ہو سکتا ہے کہ نواز شریف اور ان کی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب رہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیتی تو تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں جو احتجاجی تحریک شروع کرتیں اس میں فوج کو ہو سکتا ہے مداخلت کرنا پڑ جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ عام امریکی کو اسلا م آباد کی سیاست سے دلچسپی نہیں البتہ واشنگٹن خطے میں اپنے مفادات کے لیے پاکستان میں سیاسی استحکام کو ضروری خیال کرتا ہے۔ آئندہ حکومت اگر تحریک انصاف بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو دیکھنا ہو گا کہ امریکہ مخالف بیانات میں مشہور عمران خان امریکہ کے ساتھ کس طرح کے تعلقات چاہتے ہیں۔
مزید تفصیلات کے یہ لنک کلک کریں۔