اسلام آباد میں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف تینوں نیب ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جو بدھ کو سنایا جائے گا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد صفدر مالی بدعنوانی سے متعلق نیب ریفرنسز کی سماعت کے لیے منگل کو ایک بار پھر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
جج محمد بشیر کی عدالت میں شریف خاندان کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق درخواستوں پر بحث کی گئی۔
دوران سماعت وقفہ ہوا تو عدالت نے نواز شریف کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔
ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے ریفرنسز یکجا کرنے سے متعلق اپنے دلائل منگل کو مکمل کیے۔
خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ تینوں کیسز کا دفاع ایک جیسا ہے اور گواہان بھی ایک جیسے ہیں، لہذا تینوں ریفرنسز کو اکٹھا کرکے ایک ہی مقدمہ اور ایک ہی ٹرائل کیا جائے۔
نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ہر جائیداد میں ہر شخص کا الگ کردار ہے، العزیزیہ ریفرنس میں ہرملزم کا الگ کردار ہے، فلیگ شپ ریفرنس میں صرف ایک ٹرانزیکشن آئی، العزیزیہ میں مختلف ٹرانزیکشن پاکستان آئیں، فرد جرم میں لکھا ہے کہ کس نے کیا کام کیا۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ہر کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں، مختلف جرائم اور مختلف ٹرانزیکشن کی بنیاد پر ریفرنس الگ کیے گئے لیکن تینوں ریفرنسز میں مرکزی ملزم ایک ہی ہے۔
شریف خاندان کی پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی عدالت کے باہر موجود رہی۔
سابق وزیراعظم نے گزشتہ سماعت کے موقع پر عزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں پچاس پچاس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرائے تھے۔
گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تفصیلی فیصلہ کی کاپی نہ ملنے کے باعث احتساب عدالت میں سماعت بغیر کارروائی کے ملتوی کر دی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں نیب ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق نوازشریف کی درخواست منظور کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو پاناما لیکس مقدمے میں نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
نیب نے 8 ستمبر کو نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف لندن فلیٹس، آف شورکمپنیوں، عزیزیہ اسٹیل اور ہل میٹل کمپنی سے متعلق 3 مقدمات درج کیے۔
ان مقدمات میں نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے لگائی گئی ہے جو غیرقانونی رقوم اور تحائف کی ترسیل سے متعلق ہے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔