نیٹو کے رکن ممالک جمعہ کو برسلز میں ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جس میں یوکرین کے بحران پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جب کہ مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں کی کارروائیوں پر مغربی رہنماؤں کی طرف سے تنقید میں اضافہ ہو چلا ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ "دنیا صاف طور پر دیکھ سکتی ہے" کہ روسی فورسز مشرقی یوکرین میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے ماسکو پر "دانستہ اور متواتر" یوکرین کی جغرافیائی خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
انھوں نے کسی بھی امریکی فوجی کارروائی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بحران میں واشنگٹن اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر اوباما نے ماسکو کو متنبہ کیا کہ اسے ممکنہ طور پر مغرب کی طرف سے اضافی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سمانتھا پاور نے روس کی زیادہ سخت الفاظ میں مذمت کی۔ سلامتی کونسل میں ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں ان کا کہنا تھا کہ ماسکو نے یوکرین میں مداخلت کے بارے میں "صریحاً جھوٹ" سے کام لیا۔
"ہم موقع پر روس نے اس کونسل میں سچ کے سوا سب کچھ کہا۔۔۔۔لہذا ہم نے روس کو اس کے الفاظ سے نہیں اس کے عمل سے جاننا سیکھا ہے۔"
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویتالی چرکن نے کیئف کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے روسی بولنے والے مشرقی یوکرین میں "اپنے لوگوں کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔" تاہم انھوں نے اس علاقے میں روسی فورسز کی مداخلت کی تردید نہیں کی۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ ایک ہزار روسی فوجی مشرقی یوکرین میں سرگرم ہیں جب کہ سرحد پر دو ہزار کے قریب موجود ہیں۔ حکام نے سیٹیلائیٹ سے لی گئی تصاویر بھی جاری کیں جن میں روس کی لڑاکا فوج کو یوکرین کے اندر فوجی کارروائی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو نے جمعرات کو کہا تھا کہ روس کے فوجیوں اور مسلح افراد نے مشرقی یوکرین میں داخل ہو کر ساحلی شہر نووازووسک پر قبضہ کر لیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ اگر روسی افواج کی موجودگی سے متعلق اطلاعات درست ثابت ہوتی ہیں تو یہ یوکرین کے بحران کو "سنگین حد تک بڑھانے" کے مترادف ہوگا۔ ان کے بقول بین الاقوامی صورتحال کو مزید خراب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی۔