رسائی کے لنکس

ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ہانگ کانگ میں قومی سلامتی قانون کے تحت سب سے بڑے مقدمے کی پہلی سماعت منگل کو شروع ہوگئی، جس میں جمہوریت کے حامی 47 کارکنوں اور قانون سازوں کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

مدعا علیہان پر شہر کے قومی سلامتی کے قانون کے تحت "بغاوت کی سازش" کا الزام لگایا گیا ہے، جس میں زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہے۔

2019 میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد، بیجنگ نے سیاسی اختلاف کو روکنے کے لیے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کیا تھا۔ یہ قانون علیحدگی، بغاوت، غیر ملکی ساز باز اور دہشت گردی کے طور پر سمجھی جانے والی کارروائیوں پر سختی سے پابندی لگاتا ہے۔ اسے حکام نے ہانگ کانگ کی جمہوریت نواز تحریک کے مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔

فروری 2021 میں، 47 کارکن حکام کے سامنے پیش ہوئے اور 2020 میں غیر سرکاری پرائمری انتخابات کے انعقاد کی کوشش کی ۔ اطلاعات کی بنیاد پر سیکیورٹی قانون کے تحت ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ حکام نے ان پر الزام لگایا کہ وہ بطور قانون ساز اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح وہ ہانگ کی مقننہ میں منتخب ہو کر اکثریت حاصل کرسکتے تھے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ ان ملزمان نے حکومتی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالی، اور ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

مدعا علیہان میں جمہوری طور پرمنتخب قانون ساز، کونسلرز، ماہرین تعلیم اور جمہوریت کے حامی وکیل شامل ہیں۔ ان میں ممتاز کارکن جوشوا وونگ، بزرگ کارکن لیونگ "لانگ ہیئر" کووک ہنگ، سابق پروفیسر بینی تائی، سابق قانون ساز کلاڈیا مو، اور سابق صحافی گیوینتھ ہو شامل ہیں۔

مدعا علیہان پر فرد جرم عائد ہونے کی عدالتی کارروائی خاصی تاخیر سے شروع ہو رہی ہے۔ اب تک مدعا علیہان میں سے صرف 13 کو ضمانت دی گئی ہے، جب کہ بقیہ مقدمے کی سماعت سے پہلے بھی حراست میں ہیں اور مقدمے کی سماعت تک عدالتی کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہانگ کانگ کے سابق ضلعی کونسلر مائیکل مو نے، جو اس وقت برطانیہ میں ہیں، اس مقدمے کی سماعت شروع ہونے میں تاخیر پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ "طول پکڑتی ہوئی سماعت کی کارروائیوں نے جمہوریت کے حامی ان مہم جووں کے لیے ڈی فیکٹو سزا کا کام کیا اور استغاثہ کے طریقہ کارکا مذاق اڑایا، جس نے خود کومنصفانہ اورموثرہونے کا دعویٰ کیا"۔

ہانگ کانگ میں سینکڑوں مظاہرین گرفتارکیا جا چکا ہے
ہانگ کانگ میں سینکڑوں مظاہرین گرفتارکیا جا چکا ہے

اس کیس کو پہلی بار گزشتہ سال مارچ میں عدالت میں لایا گیا تھا اور اس کی سماعت چار دن تک جاری رہی۔ پچھلے 15 مہینوں میں، تھوڑی بہت خبریں باہر آئیں مگر زیادہ تر مقدمے کی سماعتیں رپورٹنگ کی پابندیوں سے مشروط تھیں۔

مو نے کہا کہ"عدالت صحافیوں پر اس بارے میں سخت پابندیاں عائد کرتی ہے کہ کیا رپورٹ کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔ عوام اندھیرے میں ہے، کیونکہ کارروائی کے دوران جو کچھ ہوا وہ زیادہ تر سرگوشی میں کیا گیا یا اسےممنوع کر دیا گیا۔ اس نے ہانگ کانگ کی اس عدلیہ کو داغدار کر دیا، جو کبھی شفاف ہونے پر فخر کرتی تھی، " ۔

انہوں نے کہا کہ "مقدمہ اور سزائیں [الزامات] اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بیجنگ، ہانگ کانگ کے قانونی نظام کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔" "یہ ان کا طریقہ کار ہے کہ اختلاف کرنے والوں کو خاموش کر دیں جیسا کہ انہوں نے سرزمین چین میں کیا۔"

قومی سلامتی کا قانون

تقریباً تین سال قبل قومی سلامتی کا قانون نافذ ہونے کے بعد سے اب تک 180 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور متعدد کوجیل بھیج دیا گیا ہے۔ قانون سازی نے شہر میں آزاد میڈیا اور سول سوسائٹیز کی آواز کو بھی خاموش ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔

جمہوریت نواز کارکن ٹام ٹاک چی (مرکز میں) کو حکومت مخالف مظاہرے کے بعد پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔
جمہوریت نواز کارکن ٹام ٹاک چی (مرکز میں) کو حکومت مخالف مظاہرے کے بعد پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

اس قانون کے تحت تاریخی مقدمات میں، اختلاف کرنے والوں کو بغیر جیوری اور خصوصی طور پرفہرست میں شامل قومی سلامتی کے ججوں کے سامنے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس قانون کے تحت سزا پانے والے پہلے شخص کو جولائی میں 9سال قید ہوئی تھی۔

مقامی رپورٹوں کے مطابق، 47 میں سے 46 مقدمات اب ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہے

XS
SM
MD
LG