رسائی کے لنکس

چند واقعات بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو متاثر نہیں کر سکتے: وزیرِ اعظم مودی


نریندر مودی نے جون میں امریکہ کا دورہ کیا تھا جب کہ ستمبر میں جو بائیڈن جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی آئے تھے۔ (فائل فوٹو)
نریندر مودی نے جون میں امریکہ کا دورہ کیا تھا جب کہ ستمبر میں جو بائیڈن جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی آئے تھے۔ (فائل فوٹو)

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ چند واقعات امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں کر سکتے۔

برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نریندر مودی نے کہا کہ اگر کوئی بھارت کے ساتھ کسی واقعے سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرے گا تو بھارتی حکام لازمی طور پر اس کی تحقیقات کریں گے۔

نریندر مودی کا انٹرویو ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ امریکی حکام نے اپنی سرزمین پر ایک سکھ رہنما کو قتل کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کا دعویٰ کیا تھا جس میں حکام کے بقول بھارتی عہدیدار ملوث تھے۔

واشنگٹن نے اس حوالے سے نئی دہلی کے سامنے خدشات کا بھی اظہار کیا تھا۔

امریکی محکمۂ انصاف نے کہا تھا کہ امریکہ میں ایک 52 سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے جو کہ بھارت کے ایک سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر نیویارک میں سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کا منصوبہ بنا رہا تھا۔

گرپتونت سنگھ پنوں بھارت میں ایک آزاد سکھ ریاست کے حامی ہیں اور اس کے لیے مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔

امریکی حکام کی جانب سے سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ ناکام بنائے جانے سے دو ماہ قبل امریکہ کے پڑوسی ملک کینیڈا نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ اس کے پاس شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کینیڈا میں بھارتی سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کا ہاتھ ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کے معاملے کے اثرات خارجہ تعلقات پر نہ پڑنے کا امکان ظاہر کیا۔

نریندر مودی کا کہنا تھا کہ اگر بھارت کے کسی بھی شہری نے کوئی اچھا یا برا کام کیا ہے تو بھارت اس معاملے کو دیکھنے کے لیے تیار ہے۔

ان کے بقول، "بھارت قانون کی حکمرانی کے لیے پر عزم ہے۔"

واضح رہے کہ بھارت نے گرپتونت سنگھ پنوں کو 2020 میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ البتہ گرپتونت سنگھ پنوں نے نئی دہلی کے الزامات کی تردید کی تھی۔

سکھ رہنما کا قتل، بھارت اور کینیڈاکے درمیان تنازعہ کیوں بنا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:12 0:00

بھارت مغربی ممالک پر الزامات عائد کرتا رہا ہے کہ وہ بھارتی سرزمین پر سکھ علیحدگی پسندوں کے معاملے پر سیکیورٹی خدشات کو سنجیدہ نہیں سمجھتے۔

نریندر مودی نے انٹرویو کے دوران کہا کہ بھارت کو بعض انتہا پسند گروہوں کی بیرونِ ملک سرگرمیوں پر شدید خدشات ہیں۔ یہ عناصر آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں دھمکیاں دیتے ہیں اور لوگوں کو تشدد کے واقعات پر اکساتے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی اور نئی دہلی کے تعلقات کے حوالے سے امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تعلقات کی بہتری کے لیے دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہے جو ایک مستحکم شراکت داری کی بھی واضح نشانی ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم کے مطابق "ہماری شراکت داری میں سیکیورٹی امور اور انسدادِ دہشت گردی پر تعاون کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ مناسب ہوگا کہ چند واقعات کو دو ممالک کے سفارتی تعلقات سے جوڑ دیا جائے۔"

خیال رہے کہ نریندر مودی نے رواں برس کے وسط میں جون میں امریکہ کا دورہ کیا تھا جب کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن ستمبر میں نئی دہلی میں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ان مواقع پر دونوں رہنماؤں نے ٹیکنالوجی سے لے کر دفاع تک متعدد شعبوں میں تعلقات کو وسعت دینے پر اتفاق کیا تھا۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ قبل ازیں یہ اعلان کر چکی ہے کہ اس نے امریکہ کے الزام پر ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے جو الزامات کی تحقیقات کرے گی اور ممکنہ طور پر ضروری اقدامات بھی کرے گی۔

برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کے مطابق امریکہ اور کینیڈا کے بھارت پر الزامات کے بعد اس کے مغربی اتحادیوں کے نئی دہلی کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں ملوث ہونے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا تھا۔ البتہ انہوں نے ایسے اقدامات نہیں کیے جس سے بھارت کے اندر نریندر مودی کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔

واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب بھارت میں آئندہ برس عام انتخابات ہونا ہیں۔

XS
SM
MD
LG