قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کرنے والی عدالت نے مقدمے میں استغاثہ کے پہلے گواہ کا بیان قلم بند کرلیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ بدھ کو ریفرنس کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تیسری مرتبہ پیش ہوئے۔
کیس کی اگلی سماعت 12 اکتوبر کو ہوگی جس میں استغاثہ مزید گواہان پیش کرے گا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار بدھ کو مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ تاخیر سے احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں عدالت کے جج محمد بشیر نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے پرنیب کی جانب سے وزیرِ خزانہ کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کی۔
اثاثہ جات ریفرنس میں اسحاق ڈار کی یہ تیسری پیشی تھی۔ اس سے قبل وہ 25 اور 27 ستمبر کو بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
بدھ کو جب سماعت شروع ہوئی تو جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کی موجودگی سے متعلق استفسار کیا جس پر نیب حکام نے بتایا کہ وزیرِ خزانہ کو آٹھ بجے یہاں ہونا چاہیے تھا۔
اس پر عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی اور کچھ دیر بعد اسحاق ڈارکے عدالت پہنچنے پر سماعت دوبارہ شروع کی گئی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے اسحاق ڈار کی وکالت کی جب کہ اس سے قبل ایڈووکیٹ امجد پرویز، اسحاق ڈار کے وکیل تھے۔
ریفرنس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے استغاثہ کو گواہان پیش کرنے کا حکم دیا۔
نیب پراسکیوٹر کی جانب سے اشتیاق احمد اور طارق جاوید اثاثہ جات ریفرنس کیس میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ اشتیاق احمد کا تعلق ان لینڈ ریونیو اور طارق جاوید کا تعلق نجی بینک سے ہے۔
گواہ اشتیاق احمد نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور نیب کو دیے گئے اپنے بیان کی تصدیق کی اور عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ عدالت اور نیب کو فراہم کردہ تمام ریکارڈ درست ہے۔
نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی نے بیان ریکارڈ کرایا کہ اسحاق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحاق ڈار کے نام سے 2001ء میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھولا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام 'ایچ ڈی ایس سکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ' ہے۔
اشتیاق علی نے عدالت کو بتایا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحاق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے۔
سماعت کے دوران اسحاق ڈار نے بتایا کہ انہوں نے 2005ء میں بینک الفلاح میں اکاؤنٹ کھولا تھا، جسے 2006ء میں بند کردیا گیا تھا۔
اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے گواہوں پر جرح کی گئی۔
سماعت کے بعد احتساب عدالت کے جج نے نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے سینئر عہدیدار شاہد عزیز کو بطور گواہ طلب کرتے ہوئے سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
بدھ کو سماعت کے موقع پر احتساب عدالت کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جب کہ بدھ کو رینجرز کا ایک بھی اہلکارتعینات نہیں کیا گیا تھا۔
جوڈیشل کمپلیکس میں موجود تمام عدالتوں کی کارروائی بھی معمول کے مطابق چلتی رہی اور کسی کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے سے نہیں روکا گیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر گزشتہ ماہ 27 ستمبر کو نیب ریفرنس میں اپنی آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے احتساب عدالت نے فردِ جرم عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحاٰق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے بڑھ کر 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔