رسائی کے لنکس

حمزہ شہباز کو 8 اپریل تک گرفتار نہ کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز کو پیر، 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ہفتے کو حمزہ شہباز کے وکلا کی جانب سے دائر متفرق درخواست کی سماعت کی اور حکم دیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) پیر تک حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرے۔

وکلا نے درخواست میں لاہور ہائی کورٹ سے نیب کو حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے سے روکنے کی استدعا کی تھی۔

ہفتہ وار چھٹی ہونے کے سبب حمزہ شہباز کے وکلا نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ملاقات کی اور انہیں تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا۔

حمزہ شہباز کے وکلا نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بتایا کہ نیب کی ٹیم ان کے موکل کو گھر میں گھس کر گرفتار کرنا چاہتی ہے جس سے علاقے کی پر امن فضا کے خراب ہونے کا خدشہ ہے لہذا نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔

چیف جسٹس نے وکلا کی درخواست پر سماعت اپنے چیمبر میں کی اور عبوری حکم جاری کیا جس میں نیب سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر 8 اپریل تک حمزہ شہباز کی گرفتاری روک دے۔

عدالتی حکم ملنے کے بعد نیب کی ٹیم ماڈل ٹاؤن سے واپس چلی گئی۔ اس سے قبل ہفتے کو گرفتاری کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام کئی گھنٹے تک شہباز شریف کی رہائش گاہ کے باہر موجود رہے تاہم عدالتی حکم آنے کے بعد انہیں خالی ہاتھ واپس جانا پڑا۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے ان کے والد اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی رہائش گاہ پر نیب حکام کا 24 گھنٹوں میں یہ دوسرا چھاپا تھا۔

اس سے قبل نیب کی ٹیم جمعے کی سہ پہر بھی شہباز شریف کی رہائش گاہ آئی تھی اور 45 منٹ تک رہائش گاہ کی تلاشی لینے کے بعد حمزہ شہباز کو گرفتار کیے بغیر روانہ ہوگئی تھی۔

بعد ازاں نیب کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں الزام لگایا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کے گارڈز نے نیب کی ٹیم پر تشدد کیا تھا اور انہیں حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

نیب کی درخواست پر حمزہ شہباز کے گارڈز کے خلاف پولیس نے مقدمہ بھی درج کرلیا ہے جس میں کارِ سرکار میں مداخلت، توڑ پھوڑ، تشدد اور دھمکانے کی دفعات شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور کی ایک احتساب عدالت نے نیب کو حمزہ شہباز کی گرفتاری کے وارنٹ پر عمل درآمد کا اختیار بھی دے دیا تھا۔ نیب کی ٹیم کے ہمراہ پولیس کی بھاری نفری بھی شہباز شریف کی رہائش گاہ کے باہر موجود تھی۔

اس دوران مسلم لیگ ن کے مشتعل کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ پولیس کی جانب سے رہائش گاہ جانے والے راستے بھی بند کردیے گئے تھے۔

رہائش گاہ کے باہر کا منظر
رہائش گاہ کے باہر کا منظر

نیب ٹیم کی قیادت ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری محمد اصغر کر رہے تھے جنہوں نے موقع پر موجود صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ عدالتی وارنٹ کے ہمراہ حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے آئے تھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں گھر کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا اور نہ ہی ان سے شہباز شریف کے گھر کے محافظ اور ملازموں نے تعاون کیا۔

حمزہ شہباز پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور مبینہ طور پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

تاہم گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز نے کہا تھا کہ انہیں نیب نے تحقیقات کے لیے جب بھی طلب کیا، وہ پیش ہوئے پھر ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔

نیب حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس حمزہ شہباز کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے ان کی گرفتاری کے لیے چھاپا مارا ہے۔

نیب حکام کی جانب سے حمزہ شہباز، ان کے بھائی سلیمان شہباز اور ان کی والدہ کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے کی غیر قانونی منتقلی کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ
مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ

حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے جمعے کی صبح منی لانڈرنگ کے سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا جن سے ملنے والے شواہد کی روشنی میں حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے ترجمان ملک احمد خان نے الزام عائد کیا ہے کہ نیب یہ تمام کارروائی وزیرِ اعظم عمران خان کے کہنے پر کر رہا ہے۔

تاہم گزشتہ روز وفاقی اور صوبائی وزرا نے کہا تھا کہ نیب آزاد ادارہ ہے جو اپنی پالیسیاں خود طے کرتا ہے۔

شہباز شریف کے گھر پر نیب کا دوبارہ چھاپہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:49 0:00

XS
SM
MD
LG