بھارت کی مسلم تنظیموں نے ملک کی سپریم کورٹ سے قرآن سے 26 آیات حذف کرنے کی اپیل کرنے والے درخواست گزار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ درخواست ریاست اترپردیش کے شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے دائر کی ہے جو اس سے قبل بھی تنازعات کی زد میں رہے ہیں۔
وسیم رضوی نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کی 26 ایسی آیات ہیں جن سے دہشت گردی پھیلتی ہے اور دہشت گرد تنظیمیں جہاد کو فروغ دینے کے لیے ان آیات کا استعمال کرتی ہیں۔
رضوی کے اس اقدام کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
بھارت کے قومی اقلیتی کمیشن نے وسیم رضوی کو نوٹس جاری کیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ اپنی اس حرکت پر غیر مشروط معافی مانگیں۔
کمیشن کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ قرآن کی آیات کے سلسلے میں وسیم رضوی کا بیان انتہائی اشتعال انگیز، قابلِ اعتراض، بدنیتی پر مبنی اور امن و امان کے لیے خطرناک ہے۔
نوٹس کے مطابق یہ قدم ایک مخصوص مذہب کی توہین اور مخصوص فرقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے اٹھایا گیا ہے۔ کمیشن نے رضوی کو ہدایت کی ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست واپس لیں اور غیر مشروط معافی مانگیں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ اسے اس معاملے میں رضوی کے خلاف 150 سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں۔ لہذٰا کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے آئین میں دیے گئے حقوق کا تحفظ کرے۔
بھارت کے کئی مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی نے ملک میں فتنہ پھیلانے کی جو کوشش کی ہے اس کی وجہ سے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری اور معروف شیعہ عالمِ دین مولانا کلبِ جواد نقوی نے کہا ہے کہ وسیم رضوی اسلام دشمن ہیں اور ان کا شیعہ مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔
اُن کے بقول، "وسیم رضوی متعصب اداروں اور اسلام دشمن تنظیموں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور فرقہ واریت بھڑکانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔"
بی جے پی کا اظہارِ لاتعلقی
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مسلم رہنما سید شاہنواز حسین نے وسیم رضوی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس قسم کا قدم اٹھا کر ملک کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے خبر رساں ادارے 'پی ٹی آئی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میری پارٹی کا یہ مؤقف ہے کہ قرآن سمیت کسی بھی مذہبی کتاب کے بارے میں اگر کوئی قابلِ اعتراض بات کی جاتی ہے تو وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ بی جے پی ان لوگوں کے خلاف ہے جو مذہبی کتاب کی توہین کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی قرآن کی کسی بھی آیت میں ترمیم کے خلاف ہے۔ وسیم رضوی کو اس کا حق نہیں کہ وہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے بعض رہنماؤں سے اس معاملے پر ردِعمل لینے کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی نہ مل سکی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے بی جے پی رہنما منظور بھٹ کے مطابق "ہم نے وسیم رضوی کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے۔ ہم ان کے خلاف سخت کارروائی کے حق میں ہیں۔"
ایک دوسرے بی جے پی رہنما الطاف ٹھاکر نے وسیم رضوی کے مذکورہ قدم کو ناقابلِ تسلیم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن محبت، امن، بھائی چارہ اور انسانیت کا درس دیتا ہے، تشدد کا نہیں۔
ادھر بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مسلم مذہبی جماعت 'جماعتِ اسلامی' نے پیر کو ڈھاکہ میں ایک بڑی ریلی نکالی اور وسیم رضوی کے اس اقدام کی مذمت کی۔
مظاہرین نے بھارتی سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ مذکورہ پٹیشن کو فوراً خارج کرے۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ "اللہ نے خود قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ 26 آیات تو در کنار ایک لفظ کی بھی ترمیم نہیں ہو سکتی۔"
وسیم رضوی کون ہیں؟
ادھر وسیم رضوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور آخری دم تک اپنے مؤقف پر قائم رہیں گے۔
ان کے مطابق جب ان کو احساس ہو گا کہ وہ یہ لڑائی ہار رہے ہیں تو خودکشی کر لیں گے۔ ان کے مطابق ان کے بیوی بچے، اہلِ خانہ اور رشتے داروں نے انہیں چھوڑ دیا ہے لیکن وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق وسیم رضوی کو وزیرِ اعلیٰ مایاوتی کے دورِ حکومت میں اترپردیش کے شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ ان پر وقف کی زمینوں کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے اور کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزامات ہیں جس پر ان کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔
اترپردیش کے مقامی سیاسی کارکنوں کے مطابق مایاوتی حکومت کے بعد جب اتر پردیش میں اکھلیش یادھو کی سماج وادی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو وسیم رضوی سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
ریاست میں جب یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو رضوی نے ہندوتوا کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے۔
'عدالتیں عقیدے میں مداخلت نہیں کرسکتیں'
قانون دانوں کا خیال ہے کہ وسیم رضوی کی مذکورہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ اسے فوری طور پر خارج کر دے گی اور ممکن ہے کہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔
بھارت کے معروف قانون دان جسٹس (ریٹائرڈ) سہیل اعجاز صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ عقیدے کا معاملہ ہے اور عدالتوں کو اس کی اجازت ہی نہیں ہے کہ وہ آسمانی کتابوں میں مداخلت کریں۔ یہ اپیل آئینی طور پر قابلِ سماعت نہیں ہے۔
ان کے مطابق اگر عدالت اس معاملے کی سماعت کرے گی تو پھر ایک نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا اور دیگر مذہبی کتابوں کے خلاف بھی درخواستیں دائر ہونے لگیں گی۔
اُن کے بقول مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے نہ کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ قانون جسے عدالت یا پارلیمنٹ اس میں ترمیم کرے۔
وسیم رضوی نے اپنی درخواست میں 50 سے زائد افراد اور اداروں کو فریق بنایا ہے۔ اس پر جسٹس صدیقی کہتے ہیں کہ اگر وسیم رضوی کو فریق بنانا تھا تو اللہ کو بناتے کیوں کہ یہ ان کی کتاب ہے۔ انہوں نے دوسروں کو فریق کیوں بنایا؟
'عدالت درخواست گزار کی حیثیت بھی دیکھے گی'
نلسار لا یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ مفادِ عامہ کے تحت دائر کردہ اس درخواست پر سماعت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تو بعد میں کرے گی، اس سے قبل وہ ضابطے کے تحت وسیم رضوی کے سابقہ ریکارڈ پر بھی نگاہ ڈالے گی۔
اپنے ایک ویڈیو تبصرے میں فیضان مصطفیٰ نے بھی سوال اٹھایا کہ وسیم رضوی نے اس معاملے میں اللہ کو فریق کیوں نہیں بنایا؟ ان کے بقول بھارت میں بھگوان کو فریق بنانے کی روایت رہی ہے۔ ایودھیا معاملے میں ہندوؤں نے رام کو فریق بنایا تھا اور وہ مقدمہ جیت بھی گئے تھے۔
پروفیسر فیضان کے خیال میں اس معاملے میں مختلف یونیورسٹیوں کے چانسلرز، ماہرینِ تعلیم، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کو فریق بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے بقول عدالت سب سے پہلے درخواست گزار کی حیثیت دیکھے گی اور پھر یہ دیکھے گی کہ درخواست میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔
فیضان مصطفیٰ نے بتایا کہ وسیم رضوی کے خلاف سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) تحقیقات کر رہا ہے۔ لہذٰا وہ اپنے بچاؤ کے لیے ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق وسیم رضوی کا یہ قدم اپنے سیاسی سرپرستوں کو خوش کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔