رسائی کے لنکس

حزب المجاہدین کے خلاف امریکی فیصلے پر کشمیری جماعتوں کا اظہارِ مایوسی


فائل
فائل

بی جے پی کے رہنماؤں نے اپنے ردِ عمل میں مزید کہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حمایتی سیاسی جماعتوں، قائدین اور ان کے پشت پناہ پاکستان کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔

امریکی کی طرف سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ملا جلا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

کشمیر کی مخلوط حکومت میں شامل قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھارت کے موقف کی تائید ہے۔

بی جی پی کی قیادت نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے کشمیر کے باغی نوجوانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انہیں اسے نوشتۂ دیوار سمجھ کر تشدد کا راستہ ترک کردینا چاہیے۔

بی جے پی کے رہنماؤں نے اپنے ردِ عمل میں مزید کہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حمایتی سیاسی جماعتوں، قائدین اور ان کے پشت پناہ پاکستان کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔

بی جے پی کی حلیف جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) واضح وجوہات کی بنا پر تاحال خاموش ہے لیکن اس کی صدر اور وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے مسئلے کو مل بیٹھ کر افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی پُرخلوص اور سنجیدہ کوشش کا آغاز کریں۔

دوسری جانب وادی میں سرگرم عسکری تنظیموں جن میں خود حزب المجاہدین بھی شامل ہے اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری سیاسی جماعتوں نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فیصلے پر شدیدنکتہ چینی کی ہے اور الزام عائد کیا ہےکہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ فیصلہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔

ان جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کشمیر کے ایک وسیع علاقے پر زبردستی قابض ہے اور اس کے خلاف جو تنظیمیں اور افراد لڑ رہے ہیں انہیں ہرگز دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میرواعظ عمر فاروق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں جو عسکری تنظیمیں ہیں اُن کا وجود کشمیر کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔

ان کے بقول، "یہ کوئی عالمی دہشت گرد تنظیمیں نہیں ہیں جو کشمیر سے باہر کسی کو ہدف بنارہی ہوں یا بے گناہوں کا قتل کر رہی ہوں۔ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور ہم چاہتے ہیں اس کا حل بین الاقوامی سطح پر کیے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کے مطابق ڈھونڈ لیا جائے۔ لیکن بھارت اس مسئلے کو پُر امن طور پر حل کرنے میں مدد دینے کی بجائے اسے طول دے رہا ہے۔"

میرواعظ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے ٹال مٹول اور کشمیر میں اس کی مسلح افواج کی طرف سے لوگوں پر کی جانے والی زیادتیوں اور ظلم و بربریت کی وجہ سے وادی کے نوجوانوں نے بندوق اٹھائی ہے اور مزید کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں کوئی سیاسی اسپیس فراہم نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے یہاں کا نوجوان بندوق کا سہارا لینے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام غیر منصفانہ ہے اور اس سے لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔

میر واعظ کا مزید کہنا تھا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ طاقت اور تشدد سے مسئلہ حل نہیں ہوگا لیکن بین الاقوامی برادری با لخصوص امریکہ کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ کشمیری عسکری تنظیمیں القاعدہ اور داعش کی طرح عالمی دہشت گرد تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ انہیں کشمیر کے مسئلے اور یہاں کی زمینی صورتِ حال کے پیرائے میں دیکھنا چاہیے۔

حزب المجاہدین کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1988ء میں قوم پرست جماعت 'جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ' کی طرف سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی قائم کیا گیا تھا۔

حزب کے سربراہ محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو بھی اس سال جون میں امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ نے غیر ملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا تھا جس کے خلاف مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی تھی جس کے دوران پُرتشدد مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

بھارت نے امریکی حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ امریکہ اور بھارت ، دونوں کو دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔

تاہم پاکستان نے امریکی فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرنے والے افراد کو دہشت گرد قرار دینا قطعی طور پر بِلا جواز ہے۔

حزب المجاہدین کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے کے عمل کے بعد اس تنظیم کے لیے وہ وسائل اکٹھا کرنا مشکل ہوجائے گا جن کے ذریعے وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔

اس کے علاوہ امریکہ میں حزب کے تمام اثاثے منجمد کردیے جائیں گے اور امریکہ میں اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے مالی لین دین پر پابندی ہوگی۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حزب المجاہدین کشمیر کی سب سے فعال مقامی عسکری تنظیم ہے لہٰذا امریکی وزارتِ خارجہ کے اس فیصلے کے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت پر دور رَس اثرات مرتب ہوں گے اور کشمیری سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر علاقے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا دفاع کرنا مشکل ہوگا۔

میرواعظ سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا کشمیر میں بندوق کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا ہے، تو انہوں نے کہا ، "اگر امریکہ یہ کہتا کہ کشمیر کے مسئلے کو سیاسی طور پر پُرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بھارت کو آمادہ کردیتا تو ہم ان نوجوانوں سے کہہ سکتے تھے کہ آئیے آپ بھی اس سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں۔ لیکن یہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں۔ ہماری پوری قیادت قدغنوں کا شکار ہے ۔ خود میں گزشتہ 45 دنوں سے گھر میں نظر بند ہوں۔ سیاسی اجتماعات پر اور یہاں تک کہ نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عائد ہے۔ اگر کوئی کشمیر کو تشدد اور جنگی حالات کی طرف دھکیل رہا ہے تو وہ بھارتی حکومت ہے۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG