اسلام آباد —
پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں استغاثہ کے وکیل پر پرویز مشرف سے متعلق تعصب رکھنے کے الزامات کی درخواست مسترد کر دی۔
پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے دائر درخواست کے فیصلے میں عدالت عالیہ کے تین ججوں پر مشتمل ٹربیونل نے کہا کہ اس نقطے پر اسلام آباد ہائی کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی زیر سماعت ہے۔
اس لیے خصوصی ٹربیونل کے مطابق آئینی عدالت نا ہونے کے باعث اسے کسی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق حاصل نہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس لیے سابق صدر کی اس درخواست کو خارج کیا جاتا ہے۔
تاہم پرویز مشرف کے وکلا نے جمعہ کو خصوصی عدالت میں ایک اور درخواست بھی دائر کردی جس میں استدعا کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کے موکل کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ خارج کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر کی قانونی ٹیم کے رکن چوہدری فیصل حسین کا اس درخواست کے بارے میں کہنا تھا۔
’’وقت کے ساتھ جو تبدیلیاں اس قانون میں رونما ہوئی ہیں ان کے تحت یہ قانون اب موجود ہی نہیں۔ آرٹیکل 6 میں بھی تبدیلی کی گئی تھی اور آئین کو معطل کرنا 2010 سے پہلے جرم نہیں تھا۔‘‘
فوج کے سابق سربراہ کی جانب سے تمام درخواستیں خصوصی عدالت مسترد کرچکی ہے جس میں ایک خود اس ٹربیونل میں شریک ججوں پر عدم اعتماد سے متعلق بھی تھی۔
استغاثہ کی ٹیم کے رکن چوہدری حسن مرتضیٰ مان پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے درخواستوں کو بے وقعت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’وکلا صفائی کی حکمت عملی ہے کہ ٹرائیل میں تاخیر ہو۔ فوجداری مقدمے میں عموماً وکلا، سارے نہیں کچھ، کنوکشن میں تاخیر کے لیے یہ حربے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007 میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججوں کو برطرف کیا۔
67 سالہ تاریخ میں پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کے خلاف آئین معطل کرنے یا توڑنے پر اس سے پہلے کبھی عدالتی کارروائی نہیں شروع ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں پارلیمان نے آئین میں ترمیم کرکے آئین شکنی کو غداری کا فعل قرار دیا تھا۔
پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے نومبر 2007 کا اقدامات اس وقت کے سیاسی و عسکری رہنماؤں کی مشاورت سے کیا اور صرف ان کے خلاف ہی کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی فوج بھی اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس عدالتی کارروائی پر نالاں ہے۔
پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے دائر درخواست کے فیصلے میں عدالت عالیہ کے تین ججوں پر مشتمل ٹربیونل نے کہا کہ اس نقطے پر اسلام آباد ہائی کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی زیر سماعت ہے۔
اس لیے خصوصی ٹربیونل کے مطابق آئینی عدالت نا ہونے کے باعث اسے کسی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق حاصل نہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس لیے سابق صدر کی اس درخواست کو خارج کیا جاتا ہے۔
تاہم پرویز مشرف کے وکلا نے جمعہ کو خصوصی عدالت میں ایک اور درخواست بھی دائر کردی جس میں استدعا کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کے موکل کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ خارج کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر کی قانونی ٹیم کے رکن چوہدری فیصل حسین کا اس درخواست کے بارے میں کہنا تھا۔
’’وقت کے ساتھ جو تبدیلیاں اس قانون میں رونما ہوئی ہیں ان کے تحت یہ قانون اب موجود ہی نہیں۔ آرٹیکل 6 میں بھی تبدیلی کی گئی تھی اور آئین کو معطل کرنا 2010 سے پہلے جرم نہیں تھا۔‘‘
فوج کے سابق سربراہ کی جانب سے تمام درخواستیں خصوصی عدالت مسترد کرچکی ہے جس میں ایک خود اس ٹربیونل میں شریک ججوں پر عدم اعتماد سے متعلق بھی تھی۔
استغاثہ کی ٹیم کے رکن چوہدری حسن مرتضیٰ مان پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے درخواستوں کو بے وقعت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’وکلا صفائی کی حکمت عملی ہے کہ ٹرائیل میں تاخیر ہو۔ فوجداری مقدمے میں عموماً وکلا، سارے نہیں کچھ، کنوکشن میں تاخیر کے لیے یہ حربے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007 میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججوں کو برطرف کیا۔
67 سالہ تاریخ میں پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کے خلاف آئین معطل کرنے یا توڑنے پر اس سے پہلے کبھی عدالتی کارروائی نہیں شروع ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں پارلیمان نے آئین میں ترمیم کرکے آئین شکنی کو غداری کا فعل قرار دیا تھا۔
پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے نومبر 2007 کا اقدامات اس وقت کے سیاسی و عسکری رہنماؤں کی مشاورت سے کیا اور صرف ان کے خلاف ہی کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی فوج بھی اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس عدالتی کارروائی پر نالاں ہے۔