پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی پولیس ان دنوں نیوز اینکر مرید عباس اور ان کے ساتھی خضر حیات کے دہرے قتل کی گھتیاں سلجھانے میں مصروف ہے جب کہ اس دوران کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔
نو جولائی کو ڈیفنس میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ محض قتل کی ایک واردات نہیں بلکہ اس کے پیچھے 100 کروڑ روپے سے زائد کی ہیرا پھیری ہے۔ اس اسکینڈل کے متاثرہ افراد کی تعداد 30 سے زائد ہے جب کہ پولیس کا خیال ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
پولیس نے مرکزی ملزم عاطف زمان کے خلاف جہاں قتل اور اقدام خودکشی کے دو مقدمات درج کیے ہیں، وہیں ملزم کے خلاف ایک ارب روپے سے زائد کے فراڈ، دھوکہ دہی اور جعل سازی کا نیا مقدمہ درج کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
قتل کی تحقیقات کرنے والی پولیس ٹیم کے سربراہ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شیراز نذیر کہتے ہیں کہ ملزم عاطف زمان کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ پہلے ایک معمولی ڈرائیور تھا، پھر اس نے کچھ عرصہ ٹائرز کی ایک دکان پر کام کیا۔ وہاں پر کچھ لوگوں سےفراڈ کرکے لوگوں کو پھنسانا شروع کیا۔ اس نے خود کو ٹائرز کی کمپنی کا مالک بتایا اور اس بزنس میں کام کرنے والوں کو بہت اچھے منافع دینے کا جھانسہ دے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
ایس ایس پی شیراز نذیر کے مطابق ملزم نئے سرمایہ کاروں کے پیسے پرانوں کو منافع کے طور پر دیتا اور اس طرح مزید لوگوں کو اس جال میں پھنساتا چلا آیا۔ اپنا معیار زندگی بلند کیا جب کہ چند سال میں ایک درجن سے زائد بیرون ملک دورے یے،کئی جائیدادیں بھی خریدیں۔ لیکن مسئلہ تب شروع ہوا۔ جب نئے لوگ اس کے پاس آنا بند ہوگئے۔
تحقیقات میں سامنے آیا کہ مرکزی ملزم عاطف زمان نے کاروبار کے سلسلے میں مرید عباس سے ابتدائی طور پر 15 لاکھ روپے لیے تھے جس کے بعد وہ اسے ہر چند ماہ کے بعد منافع بھی دیتا تھا۔ شروع میں کم وقت میں زیادہ منافع کی شرح دیکھ کر مرید عباس نے مزید سرمایہ کاری کی تھی۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق عاطف زمان نے مقتول مرید عباس کے ساڑھے 11 کروڑ سے زائد روپے ادا کرنے تھے جب کہ اسی واقعے میں قتل ہونے والے ایک اور شخص خضر حیات کے بھی ڈیڑھ کروڑ روپے کی رقم عاطف زمان کی طرف واجب الادا تھی۔ مقتول افراد کی جانب سے رقم کے مسلسل مطالبے پر ملزم کاروبار میں نقصان کا بہانہ بناتا رہا۔ بعد ازاں اس نے انہیں مبینہ طور پر قتل کرنے کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔
پولیس کے مطابق تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ عاطف زمان نے کئی افراد کو ایک ارب روپے سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔
پولیس نے عاطف زمان کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے والے دو دیگر نیوز اینکرز سمیت متعدد افراد کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں۔ تاہم بہت سے متاثرین بدنامی کے خوف سے فی الحال سامنے آنے سے گریز کر رہے ہیں۔
پولیس کو شبہ ہے کہ اس سرمایہ کاری میں صرف منافع کے بارے میں سنی سنائی کہانی پر ہی بڑی رقم لگانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ لوگوں کو سرمایہ کاری کے عوض زیادہ منافع دینے کا لالچ دیا گیا ہو۔ پنجاب میں کچھ عرصے قبل سامنے آنے والے ڈبل شاہ نے بھی لوگوں کو پیسہ دو گنا کرکے دینے کا وعدہ کرکے دھوکہ دہی کی تھی۔
سید سبط الحسن شاہ عرف ڈبل شاہ نے گوجرانوالہ میں سادہ لوح لوگوں کو رقم دگنی کرنے کا جھانسہ دے کر چند ماہ میں اربوں روپے بٹور لیے تھے۔ ملزم کو فراڈ اور دھوکہ دہی کے الزام میں 14 سال قید اور جائیداد ضبط کرنے کی سزا سنائی گئی تھی۔
لیکن اس بار زیادہ تر میڈیا سے وابستہ افراد کا اس دھوکے میں آنا ضرور ایک نئی بات ہے۔ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری اس وقت ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ مختصر عرصے میں سیکڑوں کی تعداد میں صحافی، کیمرہ مین، ٹیکنیکل اسٹاف یا دیگر افراد اپنی نوکریوں سے یا تو ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پھر تنخواہوں کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر کا سامنا کررہے ہیں جب کہ بیشتر اداروں نے مالی مشکلات کے پیش نظر تنخواہوں میں کمی بھی کی ہے۔
معروف تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسی جعل سازی کو محض ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد تک محدود کر دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والی لالچ، حرص اور شارٹ کٹ کے حصول کی جانب بھی ایک اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ ملازمتوں کی کمی اور غیر یقینی کی صورت حال کی بھی عکاس ہے۔
مظہر عباس مزید کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی کوآپریٹو سوسائٹیز اور اس جیسے کئی اسکینڈل سامنے آچکے ہیں، جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لوگ کم وقت میں جلد از جلد امیر ہونا چاہتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا انڈسٹری میں آنے والے زیادہ تر افراد بھی کسی مناسب تعلیم و تربیت کے بغیر ہی اس سے وابستہ ہوئے ہیں جن کا مقصد محض تعلقات استوار کرکے آگے نکل جانا ہے۔
سماجی ماہرین اور نفسیات داں بتاتے ہیں کہ اس طرح کے فراڈ ان معاشروں میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں سماجی ناہمواری اور بے چینی زیادہ ہو اور زندگی میں شارٹ کٹ کے ذریعے بغیر جدوجہد یا کم محنت کرکے ترقی حاصل کرنے کا رحجان ہو۔