رسائی کے لنکس

ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی


ممتاز قادری
ممتاز قادری

ممتاز قادری کی سزائے موت پر پیر کی صبح اڈیالہ جیل میں عمل درآمد کیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے جب کہ پھانسی کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج مظاہرے بھی ہوئے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ پولیس اہلکار ممتاز قادری کو پیر کو پھانسی دے دی گئی۔

قادی کی سزائے موت پر پیر کی صبح اڈیالہ جیل میں عمل درآمد کیا گیا اور صبح کے وقت جیل کی طرف جانے والا راستہ بھی کچھ دیر کے لیے بند کر دیا گیا۔

ممتاز قادری کی پھانسی پر عمل درآمد کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور اہم مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا۔

ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد احتجاجی مظاہرے، سکیورٹی سخت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:14 0:00

قانونی کارروائی مکمل کیے جانے کے بعد ممتاز قادری کی لاش اُن کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔ سنی تحریک کے مطابق ممتاز قادری کی نمازہ جنازہ منگل کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ادا کی جائے گی۔

ممتاز قادری کی پھانسی کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور مظاہرین نے کئی اہم سڑکیں بن کر دیں۔

احتجاج کے باعث راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو بس سروس بند رہی جب کہ وفاقی دارالحکومت میں اہم سرکاری عمارتوں اور سفارت خانوں والے علاقے ’ریڈ زون‘ کو بھی غیر متعلقہ اشخاص کے لیے بند کر دیا گیا۔

ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھا اور وہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا۔ اُس نے گورنر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔

پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010 میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد اُس خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور توہین مذہب سے متعلق موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔

ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ اُس نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ اُنھوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی حمایت کی تھی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔

لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمٰی نے ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو اگر لوگ ذاتی حیثیت میں سزائیں دینا شروع کر دیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔

عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینج کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست بھی دی لیکن اُسے بھی خارج کر دیا گیا جب کہ صدر پاکستان نے بھی ممتاز قادری کی رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔

XS
SM
MD
LG