رسائی کے لنکس

محمد علی کے جنازے میں ہزاروں سوگواروں کی شرکت


بڑی سیاہ رنگ کی کاروں کا جلوس ایک ایک کرکے گزر رہا تھا۔ یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ علی کا جسد خاکی کس موٹر گاڑی میں ہے، جو سرخی مائل گاڑی میں موجود تھا۔ میت کے کفن پر روایتی قرآنی آیات تحریر تھیں، کچھ کاروں میں اُن کے احباب اور اہل خانہ سوار تھے

محمد علی کی بڑی تصاویر اٹھائے اور باکسنگ کے دستانے پہنے ہوئے، بچے ’علی‘، ’علی‘، ’علی‘ نعرے بلند کر رہے تھے، جب چمپئن کا جسدِ خاکی لیے 17 موٹر گاڑیوں کا قافلہ گزر رہا تھا۔ یہ قافلہ اُن مضافات سے بھی گزرا جہاں عظیم باکسر محمد علی پلے بڑھے، یہ کنٹکی کے شہر لوئی ویل کی جمعے کی شام تھی۔

شہر کی مغرب کی جانب رواں دواں قافلہ۔ جوں جوں بڑی سیاہ رنگ کی کاروں کا جلوس ایک ایک کرکے گزر رہا تھا، یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ علی کا جسد خاکی کس موٹر گاڑی میں ہے، جو سرخی مائل گاڑی میں موجود تھا، میت کے کفن پر روایتی قرآنی آیات تحریر تھیں، کچھ کاروں میں اُن کے احباب اور اہل خانہ سوار تھے۔

یہ 19 میل تک پھیلا ہوا جلوس تھا۔ سارے مقامات علی کے جانے پہچانے تھے۔ یہ مرحوم کا آبائی شہر تھا، جہاں اُنھوں نے اپنا بچن گزارا۔ یہاں ہی ایک ’جِم‘ ہے جہاں مایہ ناز باکسر نے کھیل کا مثالی فن سیکھا۔

قطار میں کھڑی علی کی ایک چاہنے والی، گلینڈا وکٹر مسکرا رہی تھیں۔

اُن کے الفاظ میں ’’مجھے خوشی ہے کہ جانے سے پہلے مرحوم نے یہ سب کچھ دیکھا۔ سب کو شریک کیا۔ یہی بات سب سے اہم ہے۔ وہ ہمیں بھی اس قافلے میں شریک کرنا چاہتے تھے۔ میرے لیے یہی بات اہم ہے۔ لوئزویل شہر کے بھی، کہ یہ اس قافلے کا حصہ بنا رہے‘‘۔

ورجینا بارجر کے مطابق، جانے سے پہلے علی نے شہر کے اِن مضافات کو ایک طلسماتی رنگ بخشا۔ وہ اس ہفتے ہم سے جدا ہوئے۔

محمد علی کے جنازے کا جلوس
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:52 0:00

اُن کے الفاظ میں، ’’یہاں تشدد کے واقعات نہیں ہوتے۔ کوئی خون خرابہ نہیں ہوتا۔ یہ حیران کُن امر ہے۔ امن اُن کا ورثہ ہے۔ یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہ ناقابل فہم بات ہے کہ صرف ایک ہی شخص دنیا پر اتنا اثر ڈال سکتا تھا‘‘۔

بارجر نے کہا کہ وہ گھر میں تھیں جب اُنھوں نے ’فنرل ہوم‘ سے موٹر قافلے کو جاتے ہوئے دیکھا۔ بقول اُن کے، ’’مجھے اس میں شرکت کرنی تھی۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے‘‘۔

جلوس میں شریک عمر رسیدہ حضرات کے مطابق، یہ خوش ہونے کا وقت ہے۔ یوں کہ ایک عظیم شخص جس کا گذشتہ جمعے کو انتقال ہوا، اُنھیں کثیر تعداد میں الوداع کیا جا رہا ہے۔ تاہم، یوں لگا جیسے ایک نسل جدا ہوگئی ہو۔

استاد اور اپسکوپل پریسٹ، ڈین دسترا نے علی کے لیے کہا کہ وہ شخص سفر پر تھا۔ ’’اُن کا آغاز قدامت پسند کے طور پر ہوا۔ وہ ایسا شخص تھا جو سب کو بھاتا تھا۔ میں اُنھیں اتحاد کا داعی سمجھتا ہوں۔ ہمیں اُن کی تقلید کرنی چاہیئے‘‘۔

جنازے کا جلوس ویسٹ اینڈ پر ختم ہوا جہاں چاہنے والوں نے اُنھیں الوداع کیا۔ سوگواروں نے نعرے بلند کیے، اور اُن کی گاڑی پر پھول نشاور کیے۔

علی کی میت کو ’کیو ہِل سیمیٹری‘ پہنچایا گیا، جسے اُنھوں نے ایک عشرہ قبل اپنی آخری آرامگاہ کے طور پر منتخب کیا تھا، جس کا شمار تاریخی مقامات میں ہوتا ہے۔

اُنھیں نجی تقریب میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اُن کی لوح قبر پر صرف ’علی‘ کنداں ہے، جو اسلامی روایت کے مطابق سادہ تدفین ہے۔

XS
SM
MD
LG