رسائی کے لنکس

مبارک کا استعفیٰ تبدیلی کی طرف پہلا قدم: اوباما


مبارک کا استعفیٰ تبدیلی کی طرف پہلا قدم: اوباما
مبارک کا استعفیٰ تبدیلی کی طرف پہلا قدم: اوباما

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ صدر کے عہدے سے دست بردار ہوکرحسنی مبارک نے مصری عوام کی تبدیلی کی خواہش کو پورا کیا ہے، تاہم اُنھوں نے خبردار کیا کہ ملک کا تبدیلی کی جانب یہ صرف پہلا قدم ہے۔

صدر اوباما نے یہ بات جمعے کے دِن وائٹ ہاؤس میں اپنےخطاب میں کہی، جس سے محض چند گھنٹے قبل مصری نائب صدر عمر سلیمان نے اعلان کیا تھا کہ مسٹر مبارک نے استعفیٰ دے دیا ہے اور صدر کے اختیارات فوج کے حوالے کیے گئے ہیں۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ آگے ‘مشکل دِن آئیں گے’، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ وہ پُر امید ہیں کہ مصرکے لوگوں کو اُن سوالات کے جواب مل پائیں گے جو ابھی تک حل طلب ہیں، اور وہ اُسی اتحاد کے جذبے کا مظاہرہ جاری رکھیں گے جس کا مشاہدہ احتجاج والے گذشتہ دِنوں کے دوران ہوا۔ صدر اوباما نے کہا کہ مصریوں نےتاریخ کا دھارا انصاف کی طرف موڑنےکے لیے عدم تشدد کا جو راستہ اپنایا ، اُس نے ہم سب کو متاثرکیا۔

اُنھوں نے مصری فوج پر زور دیا کہ وہ ایک قابل ِقدر عبوری دور کو یقینی بنائے جس میں مصریوں کے حقوق کا تحفظ ہو، ہنگامی حالت کے نفاذ کا قانون واپس ہو، اورآئین پر نظرِ ثانی کی جائے تاکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جاسکے۔ اُنھوں نے کہا کہ اِس تبدیلی کے نتیجے میں مذاکرات کی میز پر مصر کی تمام آراٴ کو سنا جانا چاہیئے۔

مسٹر اوباما نے یہ بھی کہا کہ امریکہ مصر کا دوست اور اتحادی رہے گا، اور عبوری دور کے دوران جمہوریت کے حصول کے لیے ہر طرح کی مدد مہیا کرنے کے لیے تیار رہے گا۔

اِس سے قبل، نائب صدر جو بائیڈن نے مصری صدر حسنی مبارک کے استعفے کو ایک تاریخ ساز لمحہ قرار دیا۔

امریکی قانون سازوں نے بھی مسٹر مبارک کے استعفیٰ کا خیرمقدم کیا ہے۔ سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے قائد ہیری ریڈ نے کہا کہ اُنھیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ مسٹر مبارک نے مصری عوام کی آواز پر لبیک کہا ۔ ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر جان مک کین نے مسٹر مبارک کے فیصلے کی تعریف کی۔ مک کین ، جو ری پبلیکن پارٹی کے 2008ء میں صدارتی امیدار تھے کہا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ مصری صدر کی طرف سے ہوا آخری قدم اُن کے ملک کے بہترین مفاد میں تھا۔
امریکہ، فوجی امداد میں مصر کوسالانہ 1.3بلین ڈالرسے زائد رقم فراہم کرتا ہے۔ کچھ امریکی قانون سازوں نے مطالبہ کیا تھا کہ

اس امدادی رقم میں کٹوتی لائی جائے اگر مصری حکومت فوری طور پر عبوری دور کی طرف اقدام نہیں اٹھاتی۔

امریکی ریاست کینٹکی میں تقریر کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ سیاسی بے چینی کےآغاز سے ہی امریکہ یہی کہتا رہا ہے کہ مصر کے مستقبل کا فیصلہ خود مصری عوام کریں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ بغاوت کے دوران امریکہ بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتا رہا ، جس میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ مظاہرین کے خلاف تشدد ناقابلِ قبول ہے اور مصریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ مصر میں ایسی سیاسی تبدیلی لانے پربھی زور دیتا رہا ہے جوناقبلِ تنسیخ نوعیت کی ہو اورجس جمہوریت کو مذاکرات کی راہ اپنا کر حاصل کیا جائے۔

بائیڈن نے مزید کہا کہ اِس معاملے پر ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز نے یک آواز ہو کر بات کی ہے، اور کہا کہ اتحاد کا یہ مظاہرہ آنے والے ‘نازک ’دِنوں کے دوران انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کو مسٹر مبارک کےدست بردار ہونے کے فیصلے سے اُس وقت آگاہ کیا گیا جب وہ اوول آفس میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ پھر اُنھوں نے چند لمحوں کے لیے ٹیلی ویژن پر قاہرہ سے نشر ہونے والی خبروں پر نظر ڈالی۔

XS
SM
MD
LG