متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے منگل کو بلائی جانے والی اپنی آل پارٹیز کانفرنس اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعد منسوخ کردی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے قومی و سیاسی معاملات بالخصوص کراچی کو درپیش مسائل اور سیاست پر منگل کو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا جس میں شرکت کے لیے ایم کیو ایم کے رہنما گزشتہ ایک ہفتے سے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہے تھے۔
لیکن منگل کو صوبے کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اعلانات کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو عین وقت پر کانفرنس منسوخ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کانفرنس منسوخ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے عدم شرکت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے دعوت نامے وصول کرتے وقت کانفرنس میں شرکت کی حامی بھری تھی لیکن ان کی جانب سے اچانک ایک ساتھ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اعلانات ان کے بقول ناقابلِ فہم ہیں۔
ایم کیو ایم کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرنےو الوں میں صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ دیگر جماعتیں شامل تھیں۔
تاہم دوسری جانب ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے رہنماؤں کی جماعت 'پاک سرزمین پارٹی' کا وفد شرکت کے لیے وقت مقررہ پر کانفرنس کے مقام پر پہنچ چکا تھا جسے کانفرنس منسوخ ہونے کے بعد واپس لوٹنا پڑا۔
ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے ایک اور گروپ ایم کیو ایم (حقیقی) کے سربراہ آفاق احمد یقین دہانی کے باوجود وقتِ مقررہ تک کانفرنس میں نہیں پہنچے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما سید علی زیدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت لازمی نہیں سمجھتے جس کا ایجنڈا ہی واضح نہیں۔
اس کانفرنس کو کراچی کی سیاست کے لیے اہم سمجھا جارہا تھا کیونکہ اس میں ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے تمام دھڑوں نے شرکت کا اعلان کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم کے منقسم دھڑوں کا ایک ساتھ بیٹھنا ایم کیو ایم کے اتحاد کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جس کے مستقبل میں شہر کی سیاست پر اہم اثرات پڑتے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے اس کانفرنس کے لیے 22 اگست کا انتخاب کیا تھا جس کی علامتی اہمیت تھی۔ ایک سال قبل آج ہی کے دن ایم کیو ایم نے اپنے بانی و قائد الطاف حسین سے ان کے پاکستان مخالف بیانات کے باعث راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔