رسائی کے لنکس

'لاپتا افراد بازیاب نہ ہوئے تو اگلی بار تحریک بھی شروع ہو سکتی ہے'


مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے۔
مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے۔

اسلام آباد سے ہفتے کو دھرنا ختم کرنے والے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی یقین دہانی کے بعد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پُر امید ہیں۔ تاہم اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوتی تو اگلی بار ہونے والا دھرنا تحریک کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔

یہ دھرنا 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' نامی تنظیم کے زیرِ اہتمام ہوا تھا جسے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ختم کر دیا گیا تھا۔

تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اُنہیں وفاقی وزیرِ برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان لاپتا افراد کے خاندانوں سے 15 مارچ تک ملاقات کریں گے۔

اُن کے بقول حکومت کی جانب سے لاپتا افراد کی جلد بازیابی کی یقین دہانی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے گمشدہ افراد کی بازیابی میں قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوتی تو ان کے پاس دوبارہ احتجاج کا راستہ موجود ہے۔

نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کو منظرعام پر نہ لایا گیا تو ایسی صورت میں اہم سیاسی جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے تاکہ دھرنوں کو منظم تحریک کی شکل میں آگے بڑھایا جاسکے۔

دھرنے کے شرکا حکومتی یقین دہانی سے کس حد تک مطمئن ہیں؟ اس سوال پر نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا لاپتا افراد کے اہلِ خانہ نے حکومتی یقین دہانی کا خیر مقدم کیا ہے۔ اُن کے بقول مارچ کے وسط تک اسلام آباد میں رہنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے مسنگ پرسنز کا تین رکنی وفد اس حوالے سے وزیرِ اعظم کے ساتھ طے شدہ ملاقات کے لیے دوبارہ اسلام آباد آئے گا۔

دھرنے میں شرکت کرنے والی سمی بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت سے مذاکرات کے بعد لاپتا افراد کی فہرستیں فراہم کر دی ہیں جن میں 270 افراد کے نام موجود ہیں۔

اُن کے بقول حکومت کو فراہم کردہ فہرست میں شامل افراد اُن لاپتا افراد کے علاوہ ہیں جن کے خاندان اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

یاد رہے کہ نیشنل پریس کلب اور بعدازاں ڈی چوک پر دس روز تک جاری رہنے والے دھرنے میں درجنوں افراد شریک تھے۔ حکومت کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان سے جلد ملاقات اور اپنے پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی پر شرکا نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دھرنے میں شرکت کرنے والی حسیبہ قمبرانی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "دھرنا شرکا اسلام آباد کو خیرآباد کہہ کہ بلوچستان کی جانب اس امید کے ساتھ نکل پڑے ہیں کہ ہمارے گمشدہ پیارے جن کا پتا کرنے اتنی مسافت طے کر کے آئے تھے ان کا پتہ چل سکے۔"

انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ دھرنا ختم ہونے کے بعد لاپتا افراد کی بازیابی کے عمل میں تیزی آئے گی۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ "مسنگ پرسنز اپنی ایک تین رکنی کمیٹی بنائیں گے جس سے وزیرِ اعظم مارچ کے مہینے میں ملاقات کریں گے۔

شیریں مزاری کے مطابق دھرنے میں شریک خاندانوں سے لاپتا افراد کی فہرستیں مانگی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ جبری گمشدگیوں کے کیسز پر کام کرنے والے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے دھرنا عمائدین نے ملاقات کی تھی۔ دھرنے کے دوران شرکا کی ملاقات وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید اور کابینہ کے مسنگ پرسنز پر بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے بھی ہوئی تھی۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس لاپتا افراد کمیشن کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دے چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG