کراچی میں پیش آنے والے ایک دلخراش واقعہ میں ایک ماں نے اپنی دو سالہ بیٹی کو حالات سے تنگ آ کر سمندر میں ڈبو کر ہلاک کر ڈالا۔ سماجی ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنائے بغیر ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
پیر کے روز ساحلی شہر کراچی میں ایک ماں نے اپنی دو سالہ بچی کو سمندر میں پھینک دیا اور اس کے بعد خود بھی خودکشی کی کوشش کی، لیکن شہریوں نے بر وقت کارروائی کرتے ہوئے اسے بچا بچا لیا، جب کہ بچی ہلاک ہو گئی۔ پولیس نے خاتون کو گرفتار کر کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ایک گریجویٹ تعلیم یافتہ ماں کا اپنی ہی اولاد کو یوں قتل کرنے کے واقعے پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اور ہر جگہ اس دلخراش واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
پولیس کے مطابق شکیلہ راشد نے اپنی دو سالہ بچی انعم راشد کو گھریلو ناچاقیوں سے تنگ آ کر سمندر میں ڈبویا۔
پولیس کو اپنا ابتدائی بیان ریکارڈ کراتے ہوئے ملزمہ نے بتایا کہ 2011 میں اس کی شادی ہوئی اور چار سال بعد اس کی بیٹی پیدا ہوئی جس کے بعد سے شوہر نے اس کے ساتھ نارواسلوک رکھا ہوا تھا۔ راشد نے بیوی اور بچی کو گھر میں رہنے بھی نہ دیا اور دوسری جانب شکیلہ کے والدین نے بھی انہیں پناہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
ایس ایچ او ساحل تھانہ مس غزالہ نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملزمہ نے یہ اقدام شدید ذہنی دباؤ میں کیا ہے۔ پولیس نے ملزمہ کے خلاف کیس درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزمہ کے شوہر اور سسرالیوں کو بھی کیس میں شامل تفتیش کیا جائے گا۔
اس المناک واقعے پر بات کرتے ہوئے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سیکرٹری انور کاظمی نے کہا کہ معاشرے میں پائے جانے والے مسائل ایسے المناک واقعات کو جنم دے رہے ہیں اور یہ واقعات اب تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ خواتین کو ان کے حقوق نہ دینا اور پھر معاشی اور معاشرتی مسائل اور اس سے بھی بڑھ کر ذہنی پسماندگی کمزور لوگوں کو ایسے انتہائی قدم لینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ایدھی فاونڈیشن کے سیکرٹری کے مطابق غربت اور مسائل اور دیگر وجوہات کی بناء پر فلاحی ادارے کے حوالے کیے جانے والے بچوں میں سے 95 فیصد تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے میں اب بھی لڑکیوں کے بارے میں انتہائی پست سوچ رکھی جاتی ہے
ماہر نفسیات اور لیاری جنرل اسپتال میں تعینات ڈاکٹر حفیظ احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے سماجی اور نفسیاتی پہلو ہیں۔ یہ واقعات ڈپریشن، شیزوفرینیا اور انفرادی مسائل کے باعث بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان واقعات میں سماجی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناانصافی، بے چینی، بھوک، افلاس، معاشرتی بے راہ روی اور سب سے بڑھ کر سماجی ناہمواریاں ایسے المناک واقعات کو جنم دیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق خواتین کو معاشرے میں ان کے جائز حقوق نہ دینے، تعلیم کی کمی اور پسماندہ سوچ ایسے المیوں کو جنم دیتی رہے گی جو معاشرے پر ایک داغ چھوڑ جاتے ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے تعلیم کا فروغ، معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی پر قابو پانے اور خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔