رسائی کے لنکس

’میرس‘ وائرس، مزید تحقیق ناگزیر: ماہرین


اس وائرس کے سب سے زیادہ کیسز سعودی عرب میں ریکارڈ کیے گئے ہیں جہاں میرس وائرس میں مبتلا افراد کے قریب رہنے سے یا پھر ان اونٹوں کے ذریعے یہ بیماری پھیلی ہے جن میں میرس وائرس موجود تھا

میرس نامی وائرس جو کہ ’مڈل ایسٹ ریسپائیٹری سنڈروم‘ کا مخفف ہے، 2012ء کے بعد سے اب تک 500 افراد میں تشخیص کیا جا چکا ہے۔ اس وائرس کے ہاتھوں ہلاکت کی شرح 30 فی صد ہے۔

میرس وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے نے دنیا بھر میں ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ، یورپ اور شمالی امریکہ میں بھی کئی افراد میں اس مرض کی تشخیص کی گئی ہے۔

عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ میرس وائرس چھوت کا مرض نہیں ہے۔

اس وائرس کے سب سے زیادہ کیسز سعودی عرب میں ریکارڈ کیے گئے ہیں جہاں میرس وائرس میں مبتلا افراد کے قریب رہنے سے یا پھر ان اونٹوں کے ذریعے یہ بیماری پھیلی ہے جن میں میرس وائرس موجود تھا۔

الینوئے یونیورسٹی میں صحت ِعامہ کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر لمار ہیسبروک کا کہنا ہے کہ وائرس کسی بھی وقت اپنی ہیئت بدل سکتا ہے اور اس بارے میں مزید تحقیق ضروری ہے۔

ڈاکٹر لمار ہیسبروک کے الفاظ، ’یہ ایک نیا وائرس ہے جس کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے اور ضروری ہے کہ ہم اس بارے میں مزید جاننے کی کوشش کریں کہ یہ اتنی آسانی سے کیوں پھیل رہا ہے؟ ہمیں اس وائرس کی علامات پر بھی غور کرنا چاہیئے‘۔

ایک دہائی قبل جب سارس وائرس پھیلا تھا، تب ماہرین کا کہنا تھا کہ سارس وائرس کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب ہوائی سفر تھا۔ ہوائی سفر کے باعث یہ وائرس ایک ملک سے دوسرے ملک تک پھیلتا رہا۔

اس برس کے آخر میں سعودی عرب میں لاکھوں حجاج کرام جمع ہوں گے۔ طبی ماہرین اس موقع پر سعودی عرب پر گہری نظر رکھیں گے۔
XS
SM
MD
LG