امدادی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ نے کہا ہے کہ اتوار کو بحیرہ روم میں چالیس کے قریب تارکینِ وطن کے ڈوب گئے تھے جن کے ہلاک ہونے کا امکان ہے۔ یہ تارکینِ وطن ربڑ کی ایک کشتی پر سوار ہو کر اٹلی کے ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے جب وہ پھٹ گئی یا اس میں سے ہوا نکل گئی۔
امدادی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں بچ جانے والوں نے بتایا کہ کشتی میں سوار بہت سے لوگ سمندر میں گر کر ہلاک ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں تیرنا نہیں آتا تھا۔ اس برس بحیرہ روم میں ہونے والی تارکینِ وطن کی 1750 ہلاکتوں کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں غربت اور جنگوں سے فرار حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگ یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
اٹلی کی بندرگاہ کٹینیا پہنچنے والے زندہ بچ جانے والے افراد کا تعلق گھانا، گیمبیا، سینیگال اور آئیوری کوسٹ سے ہے۔
اٹلی کی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کے جہازوں نے گزشتہ ہفتے 6,800 تارکینِ وطن کو بچایا۔ گھانا، نائیجیریا اور گیمبیا سے مزید 652 تارکینِ وطن اٹلی کے بحری جہاز ’بیٹیکا‘ میں سوار ہو کر منگل کو اٹلی پہنچے۔
کاریتاس امدادی تنظیم کے رکن ریورنڈ ونسنزو فیڈریکو نے کہا ہے کہ ’’ہم ان کو جگہ دینے کی اپنی صلاحیت کی آخری حد تک پہنچنے کے قریب ہیں۔‘‘
گزشتہ کچھ دنوں کے دوران لیبیا سے یورپ کے لیے روانہ ہونے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ گرم موسم اور بحیرہ روم کے پر سکون پانیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانی سمگلر ربڑ کی کشتیوں اور مچھلیاں پکڑنے والی پرانی کشتیوں پر ہزاروں افراد کو اٹلی کی بندرگاہوں تک لانے کی کوشش کر رہے جس سے اب تک سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
جنوبی اٹلی پہنچنے والے تارکینِ وطن کو ملک بھر میں پھیلے مراکز میں بھیجا جا رہا ہے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شام اور اریٹیریا میں تنازعات اور جبر سے فرار ہونے والے کئی افراد کے پاس یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی جائز وجوہات ہیں۔
کچھ امدادی کارکنوں نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو ساحل پر پہنچنے والے تارکینِ وطن کے لیے ہر یورپی ملک میں ایک کوٹہ مختص کرنا چاہیے۔
مگر کچھ یورپی عہدیدار تارکینِ وطن کو جگہ دینے کے لیے راضی نہیں۔ اٹلی کے مطابق اس برس 200,000 تارکینِ وطن کا یورپ پہنچنے کا امکان ہے جبکہ گزشتہ برس یہ تعدار 30,000 تھی۔