امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی جماعت ری پبلکنز کے دو سینیٹرز نے صدر کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس سے تجزیہ کاروں کےبقول یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حکمران جماعت داخلی انتشار اور اختلافات کا شکار ہے۔
امریکی ریاست ایریزونا سے منتخب سینیٹر جیف فلیک نے منگل کو اپنی ریٹائرمنٹ کا غیر متوقع اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
دوسری جانب ریاست ٹینیسی سے منتخب ری پبلکن سینیٹر باب کورکر نے الزام عائد کیا ہے کہ صدر ٹرمپ مسلسل غلط بیانی اور بے سروپا بیان بازی کرکے "قوم کو آلودہ" کر رہے ہیں۔
سینیٹر کورکر بھی 2018ء کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن وائٹ ہاؤس نے دو اہم ری پبلکن سینیٹرز کی رخصتی پر کسی تاسف یا دکھ کا اظہار نہیں کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے سینیٹر فلیک کے دوبارہ انتخاب نہ لڑنے کو "خوش آئند قدم" قرار دیا ہے۔
منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے سینیٹر کورکر پر "ٹی وی پر ہیرو بننے" کا الزام بھی عائد کیا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بعض قریبی مشیروں کو یہ تاثر بھی دیا ہے کہ ان سینیٹرز کو آئندہ انتخاب نہ لڑنے پر مجبور کرنے میں خود ان کا ہاتھ ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنی ہی جماعت کے بعض نمایاں ارکانِ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی کھلے عام تنقید کسی بھی صدر کے لیے خاصی ہزیمت کا باعث ہے اور ماضی میں ایسی صورتِ حال بہت کم پیش آئی ہے۔
منگل کی سہ پہر سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹرجیف فلیک نے اپنی جماعت کے دیگر سینیٹرز پر بھی زور دیا کہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چلیں۔
اپنے خطاب میں سینیٹر فلیک کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو مضبوط بنانے والی بنیادوں اور روایات کو پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور اگر وہ اس پر خاموش رہتے ہیں تویہ قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 140 حروف میں سما جانی والی سطح کی سوچ کو ان معاہدوں اور اتحادوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جن پر اس پوری دنیا کا استحکام منحصر ہے۔
سینیٹر فلیک کا اشارہ صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر پیغامات کی جانب تھا جو ہر مسئلے پر ٹوئٹ کے ذریعے اپنا موقف بیان کرنے پر ماضی میں بھی تنقید کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں سینیٹر جیف فلیک نے کہا کہ ری پبلکن پارٹی ایک عرصے سے خود کو یہ امید دلارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ معقول رویہ اختیار کرلیں گے لیکن یہ امید ان کے بقول خود کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے۔
جیف فلیک 2013ء کے انتخابات میں پہلی بار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے لیکن وہ اس سے قبل 12 سال تک ایوانِ نمائندگان کے رکن رہ چکے ہیں۔
سینیٹر فلیک کی اس تقریر سے چند گھنٹے قبل ہی صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ری پبلکن پارٹی کے ایک اور رہنما اور سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ باب کورکر کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سینیٹر کورکر نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ "روایات سے بالکل ہٹ کر ایک کام کرنے والے تھے" جسے روکنے کے لیے ان کے مشیروں نے ان سے معاملے میں مداخلت کرنے کی درخواست کی تھی۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے سینیٹر کورکر نے کہا تھا کہ امریکہ کے صدر جیسی ذہنیت ہی ان کے خیال میں امریکہ کو آلودہ کر رہی ہے۔
اپنے انٹرویو میں سینیٹر کورکر نے صدر ٹرمپ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
صدر ٹرمپ نے سینیٹر کروکر پر تنقید کے لیے منگل کو ایک بار پھر ٹوئٹر کا سہارا لیا اور کہا کہ سینیٹر کروکر جیسا نااہل شخص "کتے پکڑنے والے شخص کے عہدے پر منتخب ہونے کا بھی اہل نہیں۔"
صدر ٹرمپ کے اس ٹوئٹ کے جواب میں سینیٹر کورکر نے بھی ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ "ایک مکمل جھوٹے صدر کی ایک اور غلط بیانی۔"
لیکن ٹوئٹر پر جاری اس جنگ کے بعد اور سینیٹر فلیک کی تقریر سے قبل منگل کی دوپہر صدر ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر کیپٹل ہِل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ری پبلکن سینیٹرز کے ساتھ کھانا کھایا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر کے اس دورے کا مقصد ٹیکسوں کے نظام میں لائی جانے والی اصلاحات سے متعلق قانون سازی اور دیگر پالیسی امور پر اپنی پارٹی کی حمایت کے حصول کو یقینی بنانا تھا۔
ظہرانے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ بیشتر ری پبلکن سینیٹرز "عظیم لوگ ہیں جو ٹیکسوں میں بڑی کٹوتیاں اور امریکہ کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔"
سو رکنی امریکی سینیٹ میں ری پبلکن کو 48 کے مقابلے میں 52 ارکان کے ساتھ اکثریت حاصل ہے۔ لیکن کئی دوسرے ری پبلکن سینیٹر بھی ماضی میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر بعض اہم پالیسی امور پر صدر ٹرمپ کا ساتھ دینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بعض ری پبلکن سینیٹرز ٹیکس اصلاحات کے معاملے پر بھی ٹرمپ انتظامیہ کے موقف کی مخالفت کرسکتے ہیں جس کے باعث ری پبلکن جماعت کو اس بارے میں قانون سازی پر ہزیمت اٹھانی پڑسکتی ہے۔