رات کا کوئی پہر تھا، نیند نہیں آرہی تھی، میں نے کھڑکی پر سے پردہ ہٹایا تو کمرہ ہلکی زردروشنی سے بھر سا گیا۔ باہر نگاہ کی تو آسمان کے وسط میں پوری تاریخوں کا چاند چمک رہاتھا۔ سارا ماحول ایک عجیب سی خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا اوردور تک پھیلے ہوئے درختوں کی ایک لمبی قطار میں کہیں کہیں جگنو چمکتے پھر رہے تھے۔ میری نظریں چاند پر جم گئیں۔ میں نے اتنا خوبصورت چاند پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، برسوں پہلے عمر کے اس دور میں بھی نہیں، جب ہر چیز خوبصورت لگتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے پہلی بار چاند کو اتنے غور اور توجہ سے اس وقت دیکھا تھا جب میں کالج کے ابتدائی درجوں میں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ابھی جان باقی تھی اور پاکستانی اور بھارتی کے اکثر گانوں میں چاند کا ذکر ہوتاتھا۔ انہی دنوں چاند پر اوپر تلے کئی گانے بہت مشہور ہوئے تھے اور ریڈیو کے فرمائشی پروگراموں میں ہر وقت ان کی گونج سنائی دیتی رہتی تھی۔
اس دور کی شاعری میں چاند کا ذکرعام تھا اور اکثر ایسے شعر وں کا تخلیل اوربندش اتنی خوبصورت اور اچھوتی ہوتی تھی کہ وہ سیدھے دل میں اتر جاتے تھے۔ لیکن مجھے شاعری میں دلچسپی تھی اور نہ ہی چاند سے لگاؤ۔۔۔میں سائنس کے خشک مضامین پڑھتاتھا اورسائنس دان بننے کے خواب دیکھا کرتاتھا ۔مگر شاید ماحول کا اثر تھا یا کچھ اور کہ مجھے بھی چاند کے بہت سے شعر یاد ہوگئے تھے اور پھر میرے اندر یہ تجسس جاگا کہ میں بھی دیکھو ں کہ آخر چاند میں ایسا کیا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔
ان دنوں ہم جنوبی پنجاب کے ایک دیہات نما قصبے میں رہتے تھے جس کی سب سے خوبصورت اور بڑی عمارت گورنمنٹ کالج کی تھی۔ قصبے سے ایک پتلی سی سڑک کالج تک جاتی تھی، جس کے گرد تاحد نظر کھیت اور شیشم کے گھنے درخت تھے۔ گرمیوں کی چاندنی راتوں میں اس سڑک پر لوگوں کی بہت سی ٹولیاں نظر آتی تھیں، کئی لوگ تو چہل قدمی کے لیے اپنے بچوں اور خواتین کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ اور خنک چاندنی کا لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ کئی خانگی جھگڑے حتی کہ شادی بیاہ کے معاملے بھی اس سڑک پر طے ہوجاتے تھے۔
گرمیوں کا موسم ہویا کڑاکے کی سردیاں، صبح سویرے اور عشاء کے بعدکالج تک سیر کرنا، میرے معمول کا حصہ تھا۔ صبح کی سیر کے وقت میں ایک چھوٹا سا چاقو اپنے ساتھ رکھ لیتا تھا اور راستے میں اپنے لیے کیکر کی ایک مسواک کاٹ لیتاتھا۔ اگرچہ کیکر کی مسواک سے ناطہ ٹوٹے زمانے ہوچکے میں مگر اس کا ذائقہ اور لمس آج بھی ذہن میں مہک رہا ہے۔
نصف راستے میں ایک چھوٹی سی نہر سڑک کو بیچوں بیچ کاٹتی تھی ، جس کے دونوں اطراف میں سیمنٹ کی چوڑی منڈیریں تھیں۔ ۔چاندنی راتوں میں میں واپسی پر کچھ دیر کے لیے منڈیر پر بیٹھ جاتا تھا اور پانی کی لہروں پر چاند کے ابھرتے ڈوبتے عکس کو دیکھتا رہتا تھا۔ پھر انہی دنوں اچانک میرے دل میں چاند کا تجسس جاگا اور میں اسے آسمان پر بڑے غور سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلا اور پھر دل ایسا اچاٹ ہوا کہ پانی کی لہروں پر اس کے ہچکولے کھاتے عکس سے بھی میری دلچسپی ختم ہوگئی۔
مجھے چاند کی خوبصورتی کے پل باندھنے والوں پر حیرت ہوئی کہ آخر انہیں اس سنگلاخ ویرانےمیں، جسے برسوں پہلے امریکی خلاباز اپنے قدموں تلے روند چکے ہیں، ایسی کیا خوبی دکھائی دیتی ہے، یا پھر وہ واقعی دیوانے ہیں۔ کیونکہ مجھے اس کے زرد چہرے پر سوائے چھوٹے بڑے دھبوں کے کبھی کچھ اور دکھائی نہیں دیا۔
پھر زندگی کے سفر میں وہ چھوٹا سا قصبہ بہت پیچھے رہ گیا، لیکن کالج تک جانے والی پتلی سی سڑک سے ناطہ ہمیشہ قائم رہا۔ میں نے جب بھی پرانے دوستوں کو فون کیا، توا س سڑک کا، چھوٹی سی نہر کا اور اس پر بنی منڈیروں کا ضرورپوچھا۔ ان پچیس برسوں میں وہاں سب کچھ ہی بدل چکا ہے۔ جہاں کپاس اور گندم کے کھیت تھے، وہاں کچی پکی کالونیاں خود رو جھاڑیوں کی طرح اگ آئی ہیں۔ ۔جس نہر کا ٹھنڈا میٹھا پانی کھیتوں کوسیراب کرتاتھا، اس میں اب سارے شہر کا بدبودار پانی بہتا ہے۔ سڑک دورویہ ہوچکی ہے اورپل کی منڈیر کے پاس پولیس نے ایک کیبن بنا کر ناکہ لگا رکھا ہے، جہاں گاڑیاں روک کر کاغذات چیک کیے جاتے ہیں اور جبیوں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ جو ان سے بچ نکلتا ہے، انہیں راستے میں کوئی ڈاکو پستول دکھا کر لوٹ لیتا ہے۔ اور ایک وہ بھی زمانہ تھا جب صرف دل چرائے جاتے تھے۔
میری اپنے ڈاکٹر سے خاصی بے تکلفی ہے۔ چند روزپہلے اپنے معمول کے چیک اپ کے لیے اس کےپاس گیاتو میں نے چاند کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا کہ میں تمہارے چاند کو مزید خوبصورت بنا سکتا ہوں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیسے۔ وہ ایک پرچی پر کچھ لکھتے ہوئے بولا کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ مجھےلگتا ہے کہ تمہاری نظر کچھ اور کمزور ہوگئی ہے۔ اسے چیک کروا کر چاند کو دیکھنا، تمہیں زیادہ روشن نظر آئے گا۔
کئی دنوں کے بعد جب میں نئی عینک لگا کر عینکوں کی دکان سے باہر نکلا تو شام گہری ہورہی تھی ۔ نیم تاریکی میں مجھے دور تک ٹریفک کے اشارے اور نشانات صاف دکھائی دے رہے تھے۔ گاڑیوں کی ہنڈلائٹس جو پہلے چبھتے ہوئے دھبوں کی طرح آنکھوں پر بوجھ ڈالتی تھیں، چمکدار نقطوں کی طرح بڑی بھلی لگ رہی تھیں۔ مجھے اپنے گرد وپیش کی ہر چیز بہت مختلف، بہت واضح اور بہت دلکش دکھائی دے رہی تھی ۔ مجھے خیال آیا کہ اس عینک کےساتھ مجھے چاند بھی اتنا ہی خوبصورت دکھائی دے گا جتنا کہ شاعر کی آنکھ سے نظر آتا ہے۔
مجھے زیادہ خوشی یہ تھی کہ جس شام نئی عینک ملی، وہ چاند رات تھی۔ ہمارے گھر کے راستے میں ایک چھوٹی سی ندی پڑتی ہے، جس کے ایک کنارے پر لوہے کے کئی بنچ رکھے ہیں۔ میں نے اپنی گاڑی وہاں روکی اور ایک بنچ پر بیٹھ کر چاند نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد جب چاند درختوں کی چوٹیوں سےبلند ہو کر نظروں کے سامنے آیا تو گویا میرا سانس رک ساگیا۔ یہ بالکل وہی چاند تھا جو میں نے پچیس سال پہلے نہر کی منڈیر پر بیٹھ کر دیکھا تھا۔ وہی زنگ کے چھوٹے بڑے بہت سے دھبوں والا پیتل کی تھالی جیسا چاند ۔ میں نے گھبرا کرعینک اتاری تو وہ مجھے چمکدار، بے عیب اور خوبصورت دکھائی دینے لگا۔
تب سے میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کسی چیز کا حسن اس کے نیم واضح ہونے میں ہے۔ کیونکہ فوٹوگرافر بھی تو چہرے کو خوبصورت دکھانے کے لیے اسے ’سافٹ‘ یعنی قدرے نیم واضح بنا دیتے ہیں۔