پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فائنل کے بعد پاکستانی ٹیم کے پاس آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کھیلنے کے لیے بہت کم وقت بچے گا جس کی وجہ سے پاکستانی پلیئرز کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔
نجی نیوز چینل ‘ٹونٹی فور نیوز’ میں پی ایس ایل کے میچوں پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق کپتان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ 27 فروری کو ایونٹ کا فائنل کھیلا جائے جب کہ اس کے صرف تین روز بعد راولپنڈی میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ شروع ہو جائے گا۔ لہذٰا ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو فوری طور پر طویل دورانیے کی کرکٹ سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگے گا۔
مصباح کا کہنا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم، محمد رضوان، شان مسعود سمیت ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل دیگر کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مختصر دورانیے سے طویل دورانیے کی کرکٹ میں جانے میں مشکلات ہو سکتی ہیں جس سے لامحالہ ٹیم کی کارکردگی پر اثر پڑے گا۔
مصباح نے پی ایس ایل اور آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کے شیڈول پر اعتراض کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کون سی ایسی چیز ہے جو پاکستانی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کو دو سے تین دنوں میں ٹیسٹ میچ کے لیے تیار کر دے گی؟
مصباح کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ ماضی میں انگلینڈ کا دورہ کرتے ہوئے یہی ہوا تھا۔ جب کراچی میں 16 دنوں کا قرنطینہ کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ نہیں ہوا۔ جس کے بعد آٹھ دنوں کا قرنطینہ متحدہ عرب امارات میں کیا گیا۔ جس کے دوران تمام کھلاڑی کمروں میں بیٹھے رہے اور کوئی ٹریننگ نہیں کی گئی اور دو ٹی ٹوئنٹی کھیلے گئے جس کے چار دنوں بعد ایک روزہ سیریز کھیلی گئی۔
سابق پاکستانی کپتان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کی پوری ٹیم کرونا وائرس کی وجہ سے تبدیل ہو گئی اور پاکستان پھر بھی تین صفر سے سیریز ہار گیا۔
ان کے بقول انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں میں 15 سے 20 اوورز سے زیادہ کھیلنے کی انرجی ہی نہیں تھی۔
مصباح الحق کا کہنا تھا اس طرح سے سیریز کی تاریخیں رکھنے کے بعد اگر پاکستانی ٹیم ہار جائے تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔
آسٹریلیا کے ساتھ کھیلی جانے والی ہوم سیریز سے متعلق مصباح کا کہنا تھا کہ ہمیں سوچنا چاہیے تھا کہ پہلے ایک روزہ سیریز کھیل لیتے یا پی ایس ایل کے بعد سیریز میں تھوڑا وقفہ دے دیتے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ ہارون رشید کا کہنا ہے کہ دو ممالک کے درمیان ہونے والی سیریز کا ا نعقاد دستیاب تاریخوں کے حساب سے ہی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگلے پانچ سالوں کے لیے میچز کی تاریخیں طے کر دی جاتی ہیں۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ پلیئرز کے مختلف فارمیٹس کو اپنانے کی صلاحیت کا ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پی ایس ایل کے فائنل میں پہنچنے والی دو ٹیموں میں کتنے ایسے کھلاڑی شامل ہوں گے جو کہ پاکستانی ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ بنیں گے اور ان کے بقول ایسی صورت میں بہت سے کھلاڑیوں کو آرام کا موقع مل جائے گا۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک موجودہ صورت حال میں سب سے بڑا مسئلہ بائیو سیکیور ببل کا ہونا چاہیے کہ پی ایس ایل سے فارغ ہونے کے بعد پاکستانی پلیئرز بائیو سیکیور ببل کی پابندی کیسے کریں گے؟
ان کے نزدیک پاکستانی پلیئرز کو تین سے چار دنوں بعد آسٹریلیا کے خلاف کارکردگی دکھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
کرکٹ ویب سائٹ 'کرک انفو' کے پاکستان میں نمائندے عمر فاروق کا کہنا ہے کہ مصباح کی طرف سے اٹھایا گیا نکتہ جائز ہے کیونکہ لڑکے ایک ماہ سے ایک خاص موڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں اور اچانک ٹیسٹ میچ کھیلنا مشکل ہوتا ہے۔
اُن کے بقول پی ایس ایل میں ہر ٹیم 10، 10 میچز کھیلے گی اور ایک ماہ میں کھیلے جانے والے میچز کے دوران کھلاڑی بھی ذہنی طور پر مختصر دورانیے کی کرکٹ کھیلنے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کے بعد صرف دو دنوں کا وقفہ ہے جس کی وجہ سے بڑا مشکل ہوتا ہے کہ پوری ٹیم پوری یکسوئی کے ساتھ طویل دورانیے کی کرکٹ کھیل سکے۔
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ چونکہ کہ کوچ بھی نیا ہے تو یہ بہت کم وقت ہے اور بڑی سیریز میں ہر لڑکے کی فارم دیکھنی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ ہیں۔ وہ کرکٹ تو کھیل رہے ہیں لیکن جب وہ بڑے فارمیٹ میں آئیں گے تو بڑے فارمیٹ میں منتقلی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بھی اس حوالے سے ضرور سوچا ہو گا، لیکن آج کل کرکٹ اتنی زیادہ ہو رہی ہے کہ شیڈول بنانے میں اب بہت مشکل ہوتی ہے۔
بالر کی مثال دیتے ہوئے عمر فاروق کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میچز میں بالرز کو مختلف لائن و لینتھ پر بالنگ کرانا ہوتی ہے۔ لہذٰا اُنہیں وقت درکار ہوتا ہے۔
ہارون رشید کا مزید کہنا تھا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں اور پاکستان کے لیے یہی اچھا ہے۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان سے کھیلنے کے بعد آسٹریلوی کھلاڑیوں نے انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے جانا ہو۔ اس لیے ان کے بقول پاکستان کرکٹ بورڈ نے دستیاب تاریخوں کو ہی دیکھنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے ساتھ سیریز میں اتنے کم دنوں کی وجہ سے یقیناً فرق کھلاڑیوں کی کارکردگی پر پڑے گا۔ لیکن ان کے بقول آسٹریلیا کی ٹیم بھی تو سری لنکا سے ایک روزہ سیریز کھیل کر آ رہی ہے۔ ان کے بقول اب یہی کرنا ہوتا ہے کہ کبھی وائٹ بال سے کرکٹ کھیلی جائے اور اس کے فوراً بعد ریڈ بال سے کھیلی جائے۔
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کے پیش نظر چیزیں حتمی نہیں ہوتی اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کرکٹ واپس آ گئی ہے لیکن ابھی بھی چیزیں نارمل نہیں ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلوی ٹیم 24 برس بعد پاکستان آ رہی ہے اور پاکستان میں ہماری ضروریات کو کم دیکھا جاتا ہے اور آنے والی ٹیم کی ضروریات کو زیادہ دیکھا جاتا ہے کہ اُنہیں مطمئن کیا جائے۔