منی سوٹا کے تین نوجوان، جن پر داعش میں شمولیت کا الزام ہے، جمعے کے روز منی پولس میں مقدمے کی کارروائی کے دوران پیش ہوئے۔ آج ریکارڈنگ پیش کی گئی جس میں ملزمان شام جانے سے متعلق گفتگو کرتے دکھائے گئے ہیں۔
غلد علی عمر، محمد فرح اور عبدالرحمٰن داؤد کمرہٴ عدالت میں موجود تھے، جنھوں نے ریکارڈنگ سنی جب کہ اُن کے سابق دوست، ایف بی آئی کے مخبر اور عبد الرحمٰن بشیر نے شہادت پیش کی۔
ریکارڈنگ میں پکڑے ہوئے تینوں ملزمان کو، جو تمام صومالی نژاد امریکی ہیں، منی سوٹا کے ایک دوست سے اسکائیپ پر کال میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے سے متعلق گفتگو کرتے دکھائے گئے ہیں۔
ساتھ ہی، وہ یہ بات کر رہے تھے کہ سفر کے لیے کتنی رقم اور دستاویزات درکار ہوں گے۔
گفتگو کے کچھ حصوں میں اِن لوگوں نے اشارے کنائے کا لہجہ اپنایا ہوا تھا۔ بشیر نامی مخبر نے جیوری کو بتایا کہ لفظ ’’لڑکی‘‘ سے پاسپورٹ مراد تھی اور ’’ہاٹ بوائز آن دی بلاک‘‘ کا مطلب ’’ایف بی آئی ہمیں دیکھ رہی ہے‘‘ تھا۔
جمعے کو منی سوٹا کی ضلعی عدالت میں سماعت دسویں روز جاری رہی۔ عمر، فرح اور داؤد پر ایک دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے اور بیرون ملک قتل کرنے کی سازش کا الزام ہے۔
محمد فرح کی والدہ، ایان فرح نے بشیر پر ’’سازش میں پھنسانے‘‘ اور جوابدہ کو مرضی کی باتیں اگلنے پر اکسانے کا الزام لگایا۔
فرح نے کہا کہ حکومت کے پاس اِن افراد کے خلاف کافی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ملزمان کی جانب سے 20 برس کے بشیر پر جرح کا مرحلہ باقی ہے۔
منی پولس کے کمرہٴ عدالت سے باہر جمعے کو چند لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کے رپورٹر نے بتایا ہے کہ یہ گروپ نوجوان صومالیوں پر مقدم چلانے کے خلاف احتجاج کر رہا تھا۔