رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں سے 'پانچ لاپتہ افراد' کو بھی سزا سنائی گئی: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دو سالہ مدت کے دوران فوجی عدالتوں نے 270 سے زائد افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کی جن میں 161 کو سزائے موت جبکہ ایک سو سے زائد افراد کو قید کی سزا سنائی گئی۔

پاکستانی ذرائع میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی میں ملوث عام شہریوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے و الی فوجی عدالتوں نے کئی ایسے افراد کو بھی سزا سنائی ہے جو ایک عرصے سے لاپتہ تھے۔

پاکستا ن کے ایک موقر انگریزی اخبار ڈان میں اتوار کو شائع ہونے والے رپورٹ کے مطابق جن افراد کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی گئی ان میں سے بعض کے معاملات جبری گم شدگیوں کے تحقیقات کرنے والے کمیشن میں بھی زیر سماعت تھے۔ اگرچہ فوجی عدالتوں کیطرف سے مجرم قرار دیے گئے لاپتہ افراد کی حتمی تعداد تو نہں بتائی گئی ہے تاہم ڈان نے اپنی رپورٹ میں ایسے پانچ لاپتہ افرادکا ذکر کیا جنہیں فوجی عدالتوں نے سزا سنائی ہے۔

اگرچہ حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس رپورٹ کے بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی طرف یہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ یہ پانچوں افراد فوجی اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات پر حملے میں ملوث تھے اور ان میں عبید اللہ نامی شخص بھی شامل ہے جسے بنوں جیل پر حملے کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنائی گئی تھی۔

پاکستا ن میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث شہریوں کے خلاف مقدمات کی فوری سماعت کے بعد انہیں سزائیں دلوانے کے لیے بنائی جانے والی فوجی عدالتوں کی دو سالہ مدت ہفتے کو ختم ہو گئی۔

تاہم ان عدالتوں کی تشکیل پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تنقید کی جاتی رہی اور انھیں ملک میں رائج نظام عدل کے متوازی ایک اور نظام قرار دیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ''ایچ آر سی پی" کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ، " کیونکہ عام طور پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت میں شفافیت نہیں ہے اور یہ کھلی عدالت میں مقدمات کی سماعت نہیں ہوتی ہے کہ کوئی بھی جا کر دیکھ سکے کہ کیاانصاف کے تقاضے پورے ہوئےہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔ تو ان تمام مقدمات کو دیکھنے کی ضرورت ہے جن میں فوجی عدالتوں سے سزاسنائی جا چکی ہے۔"

تاہم حکومتی عہدیداروں کا موقف رہا ہے کہ ان عدالتوں میں ملزمان کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جاتا رہا اور وہ اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کے لیے اعلیٰ سول عدالتوں سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ایک آئینی ترمیم کے بعد ان عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔

دو سالہ مدت کے دوران فوجی عدالتوں نے دو سو ستر سے زائد افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کی جن میں 161 کو سزائے موت جبکہ ایک سو سے زائد افراد کو قید کی سزا سنائی گئی۔ ان میں زیادہ تر سزاؤں پرابھی عمل درآمد ہونا باقی ہیں کیونکہ سزا پانے افراد کی اپیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

XS
SM
MD
LG