سپریم کورٹ نے فوجی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے 14 ملزمان کی سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ اور فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
ان 14 افراد کو 2005 مین پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں رینجرز پر فائرنگ میں ملوث ہونے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس حملے میں 2 رينجرز اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
ان 14 افراد میں غلام عباس۔ ممتازاحمد، محمد عباس، شبیر رضوی، علی رحمت، بلال حسین ، جمیل، طارق اختر، جمیل حیدر، زاہد علی، مجاہد حسین، صفدر علی اور یعقوب شامل ہیں۔
مذکورہ افرد کو فوجی عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ملزمان نے ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے راول پنڈی بینچ میں اپیل کی تھی ، تاہم عدالت نے معاملہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی بنا پر یہ اپیلیں خارج کر دیں تھیں۔
ملزمان نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی ابتدائی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سزاؤں پر عمل درآمد تا حکم ثانی روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔ تاہم سماعت کی آئندہ تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
ملزمان کی جانب سے دائر درخواست میں وفاق، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے قیدیوں کی جانب سے اپیلوں کی سماعت کے دوران سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا ۔
دسمبر 2014 میں دہشت گردوں کی جانب سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں 145 سے زائد افراد کو ہلاک کیے جانے کے بعد، ہلاک ہونے والوں میں بیشتر اسکول کے طلباء تھے، 2015 میں پہلی مرتبہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتیں قیام کی گئیں تھی۔
پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 کے تحت وفاقی حکومت کو کسی بھی مقدمے کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
فوجی عدالتوں نے متعدد دہشت گردوں کو سزائے موت سمیت دیگر سزائیں سنائی تھیں اور اس تناظر میں متعدد دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی کرایا گیا جن میں بیشتر پر سیکیورٹی اہل کاروں پر حملے کا الزام تھا۔