پاکستان میں سلامتی کی صورت حال پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ 2017 ء کے مقابلے میں گزشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی نمایاں کمی کے باوجود تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک شدت پسند گروپ بشمول داعش پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی طرف سے اتوار کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2017ء کے مقابلے میں ملک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں کمی واقع ہوئی بلکہ ان حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 29 فیصد کمی ہوئی ہے اور جب کہ ان دہشت گرد حملوں کے واقعات میں ہونے والی اموات کی تعداد میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2018ء میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 595 افراد ہلاک ہوئے اور ان میں 38 فیصد ہلاکتیں ان پانچ حملوں میں ہوئیں جن کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش نے قبول کی تھی۔
پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ مقامی فرقہ ورانہ شدت پسند عناصر داعش کا حصہ بن گئے ہیں۔
"اس کی وجہ سے کہ جتنے بھی فرقہ ورانہ گروپ تھے انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس لیے آنے والے دنوں میں بھی یہ گروپ ایک خطرہ رہے گا۔"
تاہم عامر رانا نے کہا ہے کہ شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف وضع کردہ 'قومی لائحۂ عمل' (نیشنل ایکشن پلان) پر پوری طرح عمل درآمد سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی موثر روک تھام میں مدد ملے گی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کی توجہ اہداف پر مرکوز کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور توجہ دینی ہو گی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کالعدم تنظیموں سے متعلق پالیسی کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کالعدم گروپ سے متعلق ان کے بقول پائے جانے والے ابہام کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گروپوں کے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس "ایف اے ٹی ایف" کے دباؤ کا سامنا ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق 2018 ء میں سیاسی رہنماؤں پر 24 حملے ہوئے جن میں 218 افراد ہلاک جبکہ 394 زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 2018ء میں سب سے زیادہ حملے صوبہ پختونوخوا اور اس سے ملحقہ سابق قبائلی علاقوں میں ہوئے جب کہ دہشت گردی کے حملوں میں سب سے زیادہ افراد بلوچستان میں مارے گئے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی کمی کے باوجود تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ گروپ بشمول داعش پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
پاکستانی حکام کی طرف سے ملک میں ’داعش‘ کی منظم موجودگی کی تواتر کے ساتھ تردید کی جاتی رہی ہے اور حکام کے مطابق حالیہ سالوں میں شدت پسند عناصر کے خلاف جاری کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں امن و مان کی مجموعی صورت حال میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ترکی کے دورے کے دوران داعش کو خطے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔