قاہرہ کے اعلیٰ طبقے کے غزیرہ کلب میں پانی کے نلکے کھلے ہوئے ہیں اور کارکن نزدیک ہی بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔ ہرروز یہاں بہت سا پانی اسی طرح بہتا رہتا ہے جب کہ قاہرہ کے دوسرے حصوں اور نواحی علاقوں میں لو گ پانی کو ترستےہیں ۔
حسام عبد ا لرزاق جو قاہرہ کے ایک غریب محلے ظوقا الابلط میں رہتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ان کے محلے میں سرکاری نلوں میں بیشتر وقت پانی آتا ہی نہیں۔ عورتوں کو پانی خریدنے کے لیے ایک دوکان پر جانا پڑتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی کبھی پانی نلوں میں آتا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ کے لیے۔ بچے پانی پینے کے لیے نلوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ گھروں میں کھانا پکانے اور پینے کے لیے عورتیں ایک کمپنی سے پانی خریدتی ہیں۔
مصری حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں سالانہ 55 ارب کیوبک میٹر پانی استعمال ہوتا ہے اور اس کا 87 فیصد حصہ دریائے نیل سے حاصل ہوتا ہے ۔ تا ہم ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تنازع کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہو رہی ہے اور اس سے بحران کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ یہ ملک جن میں ایتھیوپیا، یوگنڈا اور جنوبی سوڈان شامل ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں دریائے نیل کے پانی سے زیادہ بڑا حصہ ملنا چاہیئے ۔ لیکن مصر اور سوڈان کا اصرار ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی دور کے ایک سمجھوتے کی رو سے ، انہیں دریائے نیل کے بیشتر پانی کے استعمال کا حق حاصل ہے ۔
عمر عشور برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسٹر میں سیاسیات کا مضمون پڑھاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر نے برسوں تک اپنی جنوبی ہمسایوں کو جس طرح نظر انداز کیا ہے ، اب اسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
’’وسطی افریقہ اور جنوبی ہمسایوں کے سلسلے میں ہم نے کئی عشروں سے جو ناقص خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی تھی، اب ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سابق صدر حسنی مبارک کے عہد میں، تمام ترقیاتی اور تعاون کے منصوبوں کو مکمل طور سے نظر انداز کیا گیا، اور جنوب میں، خاص طور سے ایتھیوپیا، روانڈا، جنوبی سوڈان اور سوڈان کے ساتھ خارجہ پالیسی میں احساسِ برتری سے کام لیا گیا ۔ یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ یہ ملک صدر ناصر کے زمانے میں ہمارے اتحادی اور دوست تھے اور مصر ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے، صورتِ حال تبدیل نہیں ہو گی۔‘‘
عشور کہتے ہیں کہ جنوری کے انقلاب کے بعد نوجوانوں کے لیڈر، خیر سگالی کے اظہار کے طور پر ایتھیوپیا اور یوگنڈا دونوں ملکوں کے صدور سے ملے تاکہ تعلقات میں کشیدگی ختم ہو۔ وہ کہتےہیں کہ مصر کے لیے پانی ،قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کا ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے ۔
بحرِ احمر کے پار جنگ سے چور یمن میں، دارالحکومت صنعا کے شہریوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے گھر وں میں سرکاری نلکوں سے پانی اتنا کم آتا ہے کہ وہ شہر کے باہر سے، ٹرکوں کے ذریعے پانی منگوانے کے لیے پیسہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یمن کے زیرِ زمین پانی کے 21 ذخائر کی سطح ہر سال اوسطاً سات میٹر کی شرح سے کم ہو رہی ہے ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح پانچ سے 10 برس کے عرصے میں ملک میں پینے کا پانی مکمل طور سے ختم ہو جائے گا۔
اخبار یمن پوسٹ کے ایڈیٹر ان چیف حکیم المسماری کہتے ہیں کہ ملک میں ضرورت کا دس فیصد سے بھی کم پانی سرکاری ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، اور صنعا دنیا میں کسی ملک کا پہلا دارالحکومت ہو گا جہاں پانی بالکل ختم ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی وجہ ملک میں بنیادی ڈھانچے کی کمی اور یمن میں نشہ آور qat کا درخت اگانے کا کلچر ہے۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک میں صحیح معنوں میں ایسا بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے جس سے بارش کے پانی کے صحیح استعمال میں مدد ملے۔ اس لیے یمن میں جتنا بھی پانی استعمال ہوتا ہے وہ زیرِ زمین پانی ہے ۔ اس پانی کا 70 فیصد حصہ qat کی کاشت میں استعمال ہوتا ہے ۔ qat نشہ آور چیز ہے اور یمنی اس کی کاشت میں روز بروز اضافہ کر رہے ہیں۔‘‘
شمال میں ، لبنان اور شام میں زیادہ کثرت سے بارش ہوتی ہے لیکن وہاں بنیادی ڈھانچہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے، بارش کا پانی جمع نہیں کیا جا سکتا اور پانی کی کافی مقدر سمندر میں چلی جاتی ہے ۔ لبنان کی نوٹر ڈام یونیورسٹی کے پروفیسر لیوس ہوبیکا کہتے ہیں کہ چونکہ پانی بہت سستا ہے اس لیے لوگ اسے بڑی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔
’’کم قیمت ہونے اور میٹر سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت پانی ضائع کرتے ہیں۔ مثلاً لبنان میں پانی کے استعمال کے میٹر نہیں ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ فیس ادا کر دی جاتی ہے اور پھر جتنا چاہیں پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح لوگ بہت پانی ضائع کرتے ہیں۔‘‘
گذشتہ مہینے شام میں ایک اقتصادی کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک میں زرعی بحران ترکی کی حکومت کے ان منصوبوں سے پیدا ہوا ہے جن کے تحت ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے شام اور ہمسایہ ملک عراق دونوں میں پانی کا بہاؤ محدود ہو گیا ہے۔ ایک ماہر کا اصرار تھا کہ ملک میں حالیہ عوامی بے چینی کی بنیادی وجہ پانی کا بحران ہے ۔