پہلے مسلمان امریکی نمائندہ ِ کانگریس کیتھ الیسن مشرق ِ وسطیٰ میں عوامی تحریکوں کو جس کے نتیجے میں تیونس اور مصر میں عشروں پرانے نظام کے خاتمے کےبعد تبدیلی کے خدوخال ظاہر ہورہے ہیں، سراہتے ہوئے اس معاملے پر صدر اوباما کے موقف کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس تاریخ ساز موقع پر صحیح موقف اپنانا چاہیئے۔
امریکی ریاست منی سوٹا کے پہلےامریکی مسلمان نمائندہ ِ کانگریس کیتھ الیسن کا کہنا ہے کہ مصر میں ہونے والے مظاہرے مذہبی انتہاپسندی کی نفی کرتے دکھائی دئیے اوران مظاہروں نے القاعدہ کی جانب سے ایسے دعووں کو بھی غلط قرار دیا جس کی رو سے تشدد سے ہی سیاسی نصب العین حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تبدیلی صرف تشدد ، انتہاپسندی اور قتل و غارت گری سے ہی آ سکتی ہے۔ مگر مصر کے تحریر چوک کے مظاہرین نے یہ دکھایا کہ اگر آپ ایک چیز پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں تو کامیابی آپکا مقدر بنتی ہے ۔ اس کے لیے آپکا کسی کو مارنا ضروری نہیں۔
ایلیسن کا کہنا تھا کہ مصر کے مظاہرین نے اس وقت بھی تشدد کی راہ اختیار نہیں کی جب ان پر حکومتی عناصرکی جانب سے حملہ کیا گیا۔ انہوں نے حسنی مبارک کے استعفی کو مظاہرین کی فتح قرار دیا۔انہوں نے 2009 میں صدر اوباما کی قاہرہ میں کی جانے والی تقریر میں آفاقی اصول پیش کرنے پر بھی سراہا۔
ان کاکہناتھاکہ اس انقلاب سے دو سال قبل صدر اوباما نے قاہرہ میں اپنی تقریر میں عرب ممالک کو اپنے عوام کی آواز سننے اور حق ِ آزادی ِ رائے دینے کی بات کی تھی۔
ایلیسن کہتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ امریکہ اس تاریخ ساز وقت پر درست موقف اپنائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں مشرق ِ وسطیٰ میں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ وہاں پر انسانی حقوق اور جمہوریت کو پنپنا چاہیئے اور بندوقوں اور تشدد کو سب سے آخری تدبیر ہونا چاہیئے۔
الیسن کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے عرب دنیا اور ایران میں بڑھتے ہوئے مظاہروں پر امریکہ کو غور کرنا چاہیئے کہ کون سا ملک پرا من حق ِ آزادی ِ رائے دے رہا ہے۔