آنگیلا مرخیل چوتھی بار جرمنی کی چانسلر منتخب ہوگئی ہیں البتہ ان کی جماعت کو توقعات کے برعکس پارلیمان میں پہلے سے کہیں کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
جرمنی میں اتوار کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے مطابق چانسلر مرخیل کی جماعت 'کرسچن ڈیموکریٹک یونین' اور جنوبی ریاست بویریا میں اس کی اتحادی جماعت 'کرسچن سوشل یونین' کو 33 فی صد ووٹ ملے ہیں۔
انتخابات سے قبل یہ اندازہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ان دونوں جماعتوں کو 36 سے 39 فی صد ووٹ حاصل ہوں گے۔
سنہ 1949 کے بعد کرسچن ڈیموکریٹس کو ملنے والے یہ سب سے کم ووٹ ہیں۔ سنہ 2013 کے گزشتہ انتخابات میں چانسلر مرخیل کی جماعت کو 5ء41 فی صد ووٹ ملے تھے۔
لیکن اس کے باوجود چانسلر مرخیل کی جماعت نے پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت کی اپنی حیثیت برقرار رکھی ہے اور پارٹی رہنماؤں کو امید ہے کہ وہ دیگر دو چھوٹی لبرل جماعتوں 'فری ڈیموکریٹس' اور 'گرینز' کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
تاہم حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں ہفتوں بلکہ مہینوں لگ سکتے ہیں کیوں کہ تینوں جماعتوں کے مابین کئی اہم مسائل اور معاملات پر اختلافات موجود ہیں۔
'کرسچن ڈیموکریٹس' کی مرکزی حریف 'سوشل ڈیموکریٹ' کو انتخابات میں 20 فی صد ووٹ حاصل ہوئے ہیں جو 1933ء کے بعد سے اس جماعت کو ملنے والے سب سے کم ووٹ ہیں۔
'سوشل ڈیموکریٹ' گزشتہ چار سال سے آنگیلا مرخیل کی سربراہی میں قائم کثیر الجماعتی اتحادی حکومت کا حصہ تھی اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسے حکومت کا حصہ رہنے کی وجہ سے انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
نتائج کے اعلان کے بعد 'سوشل ڈیموکریٹس' کے سربراہ مارٹن شلز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتحادی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور حزبِ اختلاف کا کردار ادا کریں گے۔
انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'الٹرنیٹو فار جرمنی' (اے ایف ڈی) کی غیر متوقع بہتر کارکردگی نے سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے۔
'اے ایف ڈی' 13 فی صد ووٹ حاصل کرکے پارلیمان کی تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے اور نازی دور کے بعد سے جرمنی کی پارلیمان میں پہنچنے والی انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پہلی جماعت ہے۔
جرمنی کی پارلیمان میں جگہ بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو کم از کم پانچ فی صد ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد پارٹی ہیڈکوارٹر میں خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے تسلیم کیا کہ انہیں اس سے کہیں بہتر نتائج کی توقع تھی لیکن ان کے بقول اس کے باوجود جرمن قوم نے انہیں حکومت میں رہنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ووٹوں کے تناسب میں کمی کے باوجود ان کی جماعت پارلیمان کی سب سے بڑی طاقت ہے اور انہیں اگلی حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔
جرمن چانسلر نے تسلیم کیا کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے پارلیمان میں پہنچنے کے بعد ان کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ 'اے ایف ڈی' کے ووٹرز کے خدشات کا ازالہ کرکے انہیں اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہیں گی۔
جرمنی میں سیاسی تجزیہ کار خود آنگیلا مرخیل کی پالیسیوں کو بھی 'اے ایف ڈی' کی مقبولیت کا سبب قرار دیتے ہیں جو 2015ء تک خاصی غیر مقبول اور سیاسی منظر نامے سے غائب تھی۔
لیکن 2015ء میں پیدا ہونے والے پناہ گزینوں کے بحران کے بعد جرمنی کی جانب سے 10 لاکھ مہاجرین کو پناہ دینے کے اعلان کے بعد – جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی – جرمن عوام میں خدشات اور تحفظات بڑھے تھے جن سے دائیں بازو کی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا جو پناہ گزینوں کی یورپ آمد کی مخالف ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد آنگیلا مرخیل جرمنی کی تیسری چانسلر ہیں جو چوتھی بار اس عہدے کے لیے منتخب ہوئی ہیں۔
وہ پہلی بار 2005ء میں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہوئی تھیں اور انہیں روئے ارض پر سب سےطاقت ور ترین سیاست دان بھی کہا جاتا رہا ہے۔