میمو کمیشن نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اُنھیں 26مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
اتوار کے روز پاکستان ہائی کمیشن لندن اور اسلام آباد میں بیک وقت جاری میمو کمیشن کے اجلاس میں حسین حقانی کی درخواست کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ پاکستان واپس آکر خود جرح کرانا حسین حقانی کے اپنے مفاد میں ہےاور یہ کہ کمیشن سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی۔
حسین حقانی نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ متاثرہ شخص ہیں اور میمو گیٹ اسکینڈل نے اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
اُن کے مطابق، وہ چاہتے ہیں کہ 26مارچ کی بجائے پیر کوہی لندن میں اُن کا بیان ریکارڈ کروایا جائے، تاکہ کمیشن جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچے۔ لیکن، کمیشن نے حسین حقانی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اُنھیں 26مارچ کو اسلام آباد طلب کر لیا۔
اتوار کے روز کشمیری راہنما، یاسین ملک کی اہلیہ کی جانب سے اُن کے شوہر کو میمو گیٹ میں فریق بنانے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کمیشن کا کہنا تھا کہ اگر یاسین ملک خود یا اپنے وکیل کے ذریعے درخواست دیں تو اُس پر غور کیا جا سکتا ہے۔
منصور اعجاز نے اپنے بیان میں یاسین ملک کی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کے حکام سے ملاقات کروانے کا دعویٰ کیا تھا جِس پر یاسین ملک نے اپنی اہلیہ کے ذریعے کمیشن کی کارروائی کا حصہ بننے کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔
ہفتے کے روز اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے میمو گیٹ اسکینڈل کے اہم گواہ منصور اعجاز پر دورانِ جرح صدر زرداری سے 2009ء میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوالات کیے، جِس پر منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ وہ پانچ جنوری 2009ء کو صدر زرداری اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو سے واشنگٹن میں ملاقات کر چکے ہیں۔
منصور اعجاز کی صدر زرداری سے ملاقات پر حسین حقانی کیا مؤقف رکھتے ہیں، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سربراہِ مملکت سے ملاقات یوں ہوئی کہ بے نظیر بھٹو کی تعزیت کے لیے منصور اعجاز نے کہا کہ میں حاضر ہونا چاہتا ہوں، تو، اُن کے بقول،’ کسی کو تعزیت سے منع نہیں کیا جا سکتا‘۔
میمو کمیشن کی لندن میں ہونے والی کارروائی مکمل ہونے کے بعد کمیشن کا اگلا اجلاس 26 مارچ کو اسلام آباد میں ہوگا۔