گلوکارہ میشا شفیع کے وکیل اسد جمال کا کہنا ہے کہ جب عدالت میشا شفیع کے خلاف کیس کی کارروائی کا آغاز کرے گی تو وہ عدالت میں اپنا مؤقف پیش کریں گی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی طرف سے دائر کردہ چالان پر بھی جرح ہو گی۔
ایف آئی اے نے رواں ماہ 16 دسمبر کو ہراساں کیے جانے سے متعلق کیس میں گلوگار علی ظفر کو سوشل میڈیا پر بدنام کرنے پر گلوکارہ میشا شفیع اور دیگر آٹھ افراد کو قصور وار قرار دیتے ہوئے ٹرائل کورٹ سے کارروائی کی درخواست کی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے پراسیکیوشن کو جمع کرائے گئے چلان کے مطابق میشا شفیع نے اپریل 2018 میں علی ظفر کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سوشل میڈیا پر لگائے تھے۔ لیکن وہ اِس سلسلے میں شواہد پیش کرنے میں ناکام رہیں۔
گلوکارہ میشا شفیع کے وکیل اسد جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی موکلہ عدالت میں ہی اس حوالے سے اپنا مؤقف دیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب کیس عدالت میں چلے گا تو وہ بتائیں گے کہ الزامات کو ثابت کرنے کیے لیے جو شواہد پیش کیے گئے وہ کافی نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت یہ دیکھتی ہے کہ چالان کی روشنی میں یہ کیس اور جرم بنتا بھی ہے یا نہیں۔ ان کے بقول مذکورہ کیس میں میشا شفیع پر سب سے پہلے فردِ جرم عائد کی جائے گی، پھر کیس چلے گا۔
اسد جمال کی رائے میں میشا شفیع کے خلاف کیس میں پراسیکیوشن کیس کو لے کر چلے گی۔
ایف آئی اے کے چالان میں الزامات کیا ہیں؟
ایف آئی سے کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں کہا گیا ہے کہ اداکارہ میشا شفیع سمیت دیگر آٹھ ملزمان نے گلوکار علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔
ایف آئی آئی اے نے جب اِس سلسلے میں تحقیقات کیں تو ملزمان اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نہ کر سکے۔
چالان میں مزید کہا گیا ہے کہ کیس میں ملزمان میشا شفیع، اداکارہ عفت عمر، ماہم جاوید، لینا غنی، حسیمس زمان، فریحہ ایوب، سید فیضان رضا، حمنہ رضا اور علی گل نے زبانی الزمات تو لگائے لیکن کوئی تحریری شواہد پیش نہیں کر سکے۔
چالان کے مطابق رواں برس ستمبر میں عدالتی حکم پر تمام افراد کے خلاف پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) کے سیکشن (1) 20 کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
چالان میں مزید کہا گیا کہ ایک شکایت کنندہ حمنہ رضا نامی خاتون نے معافی کی درخواست کی، جن کے خلاف مزید کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عبوری چالان میں عدالت سے میشا شفیع سمیت دیگر ملزمان کے خلاف مزید قانونی کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
علی ظفر کے میشا شفیع کے خلاف الزامات
گلوکار اور اداکار علی ظفر نے نومبر 2018 میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں ایک شکایت درج کرائی تھی۔ جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان کے خلاف توہین آمیز مواد شیئر کیا جا رہا ہے۔
علی ظفر نے اپنی شکایت کے ساتھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس ٹوئٹر اور فیس بک کی تفصیلات بھی فراہم کی تھیں۔
گلوکار علی ظفر نے الزام لگایا تھا کہ اپریل 2018 میں گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراساں کرنے کے الزام سے ہفتوں قبل مختلف جعلی اکاؤنٹس نے گلوکار کے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا تھا۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں ایف آئی اے سے رابطہ کیا تو انہوں نے اِس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم مختصراً کہا کہ میشا شفیع اپنے وکلا کے ساتھ دسمبر2019 میں ایف آئی میں پیش ہوئی تھیں۔ جس میں وہ اپنے دعوؤں کے حوالے سے تحریری شواہد فراہم نہیں کر سکی تھیں۔
اِس سلسلے میں گلوکارہ میشا شفیع کے وکلا کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایف آئی اے نے اپنی نامکمل تحقیقات کے سلسلے میں ایک عبوری چالان جمع کرایا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کا چالان گمراہ کن ہے۔ ایف آئی اے کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی کو مجرم ٹھیرائے۔
'تفتیش کے لیے ایف آئی اے بلاتا ہے تو یہ لوگ نہیں جاتے'
گلوکار علی ظفر کے وکیل کے مطابق سائبر کرائم کے تحت یہ کوئی نیا کیس نہیں ہے اور اِس طرح کے جرائم پوری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔
علی سبطین فاضلی نے بتایا کہ دو سال قبل علی ظفر نے سوشل میڈیا پر اپنے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف ایف آئی اے میں ایک شکایت درج کرائی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ یہ سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اِسے روکنا چاہیے۔
علی سبطین کے مطابق جب علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کو تفتیش کے لیے ایف آئی اے بلاتا ہے تو یہ لوگ نہیں جاتے۔
علی کے بقول ابتدائی تفتیش مکمل ہونے پر ایف آئی اے ایک مقدمہ درج کرتا ہے۔ جس پر علی ظفر نے کہا کہ وہ کیس کی پیروی کریں گے۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے عدالتی حکم پر رواں برس ستمبر میں مقدمہ دائر کیے جانے کے بعد اداکارہ عفت عمر، فریحہ ایوب، سید فیضان رضا، حزیم الزمان خان اور علی گل پیر نے عبوری ضمانت حاصل کی تھی۔
یاد رہے کہ گلوکارہ میشا شفیع نے گلوکارہ علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہوں نے ایک تقریب میں اُن کے ساتھ بدتمیزی کی اور اُنہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی۔