چار سال قبل ہالی وڈ کے پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن کے خلاف خواتین کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد شروع ہونے والی 'می ٹو' تحریک اب پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہتکِ عزت کے دعووں اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث متاثرہ افراد سامنے آنے سے اب بھی کتراتے ہیں۔
'می ٹو' تحریک کے دوران بہت سی خواتین نے جنسی حملوں اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے متعلق اپنی کہانیاں آن لائن بیان کیں تو بہت سے مردوں کو ایسے الزامات کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے بھی محروم ہونا پڑا۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی ان واقعات کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکن اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے ممالک میں ہراسانی کے خلاف موجود قوانین کی موجودگی، عدم موجودگی اور ان کی افادیت پر کھل کر بات کرنے لگے۔
پاکستان میں بھی 'می ٹو' تحریک کے آغاز کے بعد سے اب تک ان چار سالوں کے دوران مرد و خواتین کی جانب سے کئی ایسے الزامات عوام کے سامنے آئے جو میڈیا پر زیرِ بحث بھی رہے اور چند ایک عدالتوں تک بھی پہنچے۔
پاکستان میں ہراسانی کے خلاف قوانین آخر کون کون سے ہیں اور کیا یہ قانون کی کتابوں تک محدود ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل حنا جیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں جنسی ہراسانی سے متعلق قوانین ان چار سالوں میں وجود میں نہیں آئے۔ اُن کے بقول ان میں سے اکثر قوانین پرانے ہیں۔
حنا جیلانی کہتی ہیں کہ جنسی جرائم سے متعلق تعزیرات پاکستان میں ایسی دفعات بھی شامل ہیں جس کے نتیجے میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کو جرمانہ، تین ماہ قید سے لے کر سزائے موت تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ملازمت کی جگہ پر ہراسانی سے بچاؤ کے لیے 'پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010' بھی موجود ہے۔ جس کا مقصد ملازمت کرنے والی خواتین کو ہراسانی کے خلاف ریاستی سطح پر تحفظ فراہم کرنا تھا۔
جرم ثابت ہونے پر اس قانون کے تحت مجرم کو اپنی ملازمت سے برطرفی، پینشن اور دیگر مراعات سے محرومی یا ملازمت میں تنزلی جیسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اس قانون کے لاگو ہونے سے خواتین میں ایک حوصلہ پیدا ہوا تھا کہ وہ اب کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو محتسب عدالت تک لے جا سکیں گی۔ جہاں ان کی شنوائی ہو پائے گی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات سامنے آئی کے اس قانون میں شکایت کنندہ کی حفاظت کا کوئی پہلو موجود نہیں۔
ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ اس نکتے سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہراسانی کے خلاف اس قانون میں بہت سے سقم ہیں جس میں سب سے بڑا یہی ہے کہ جس پر الزام لگایا جائے اس کی بات تو بعد میں ہوتی ہے لیکن شکایت کرنے والا شخص پہلے ہی زیرِ عتاب آ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی منفی رویے بھی ایسے ہی قوانین سے جنم لیتے ہیں۔ کیوں کہ جب شکایت کنندہ کو ملزم سے زیادہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو ہراسانی کا شکار افرا کے اہل خانہ اور آس پاس کے اکثر افراد یہی مشورہ دیتے ہیں کہ قانونی چارہ جوئی کے بجائے معاملہ رفع دفع کر دیا جائے۔
حنا جیلانی کہتی ہیں کہ 'پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016' وہ تیسرا قانون ہے جس کے تحت ہراسانی کے جرائم کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے۔ اس قانون کے تحت جرم ثابت ہو جانے پر مجرم کو جرمانے کے علاوہ پانچ سال قید تک سنائی جا سکتی ہے۔ یہ قانون جیسا کہ نام سے ظاہر ہے آن لائن ہراسانی اور بلیک میلنگ جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے تحت مقدمے اعلیٰ عدالتوں اور متعلقہ پلیٹ فارمز تک پہنچے تو ضرور ہیں لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔
اُن کے بقول خواتین کی مشکلات جوں کی توں رہیں اور کئی بار وہ خود ہراسانی کا نشانہ بننے کے باوجود قصور وار ٹھیرائی جاتی ہیں۔
ایسے میں یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ ملزم کا جرم ثابت کیسے ہو؟ سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قوانین میں گواہی کا معیار اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کو پورا کرنا کسی ہراسانی کے شکار فرد کے لیے تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہراسانی کے مقدمات کا فیصلہ آنا تو در کنار البتہ شکایت کنندہ ہتکِ عزت کے دعووں میں اپنا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حنا جیلانی نے حال ہی میں عدالتوں میں چلنے والے کچھ مقدموں کا ذکر بھی کیا۔ جس میں بات ہراسانی کے مقدمے سے شروع ہوئی لیکن الزام لگانے والوں کو ہتکِ عزت کے مقدمات میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑی۔
سلمان اکرام راجہ کا کہنا تھا کہ ہتکِ عزت کا دعویٰ فوج داری مقدمات کے زمرے میں آتا ہے جس کے باعث الزام لگانے والے کو جیل جانے کا خوف رہتا ہے اور ضمانت کرانا ضروری ہوتا ہے۔
اُن کے بقول اگر ہتکِ عزت کا دعویٰ دیوانی قوانین میں منتقل کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہتکِ عزت کے دعوے کا سامنا کرنے والوں کو جرمانہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر جیل جانے کا ڈر نہیں ہوتا۔
سلمان اکرام راجہ کے بقول قوانین میں ایسی ترامیم سے بہت سے ایسے افراد کی حوصلہ افزائی ہو گی جو ہراسانی کا شکار ہونے کے باوجود ہتکِ عزت کے دعووں سے خوفزدہ ہو کر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
ماہرینِ قانون اور انسانی حقوق کے کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنسی جرائم کی حوصلہ شکنی صحیح معنوں میں تب تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ معاشرتی رویے تبدیل نہ ہوں۔
لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہراساں ہونے والے کو ریاستی طور پر اتنا تحفظ فراہم کیا جائے کہ وہ بلا خوف مجرم کو سامنے لانے کے لیے اپنی آواز اٹھا سکے۔ ورنہ قوانین کتابوں تک محدود رہ جانے کا خدشہ موجود ہے۔