پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’پیمرا‘ نے اپنے بیان میں نشریاتی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ طریقے سے لاہور دھماکے کی کوریج کریں۔
اُدھر اسلام آباد میں جاری ممتاز قادری کے حامیوں کے دھرنے کی میڈیا پر کوریج نا ہونے کے برابر ہے اور اس کی وجہ بھی پیمرا کی طرف سے ٹیلی ویژن چینلز کو جاری کیا گیا انتباہ ہی ہے۔
پیمرا نے اتوار کی شب جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ برسلز حملوں کے بعد بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے جس طرح ان واقعات کی کوریج کی اس سے پاکستانی میڈیا بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے شدت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اتوار کی شام لاہور میں ایک خود کش بم حملے میں ستر سے زائد افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستان میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پیمرا کو اس طرح کی ہدایات جاری کرنے کی اس لیے بھی ضرورت پیش آئی کیونکہ اُن کے بقول بعض اوقات دہشت گردی کے واقعات کی کوریج میں ذمہ داری نہیں برتی جاتی۔
تجربہ کار صحافی راشد رحمٰن نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تجربہ کار ایڈیٹر کے نا ہونے کی وجہ سے بعض اوقات وہ چیزیں بھی نشر ہو جاتی ہیں جو نہیں ہونی چاہیں تاہم پیمرا کی طرف سے دی جانے والی ہدایات اس کا حل نہیں ہے۔
"اول تو میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ کوئی بھی حکومتی ادارہ اس طرح کی ہدایات جاری کرے کیوںکہ پاکستان کی تاریخ میں پریس ایڈوائس اور پریس کو آزادی نا دینا، یہ تاریخ کا حصہ ہے اس دور سے ہم نکل تو آئے ہیں لیکن اس طرح کی چیزوں سے یہ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور عوام پریشان ہو جاتی ہے۔‘‘
سینیئر صحافی محمد ضیا الدین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حالات میں حکومت اور میڈیا دونوں ہی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
’’حکومت کی طرف سے ایسے موقعوں پر اس طرح کی ہدایات جاری کرنا اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت کو میڈیا پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور دوسری طرف میڈیا کی طرف سے ان واقعات کی کوریج میں ذمہ داری کا مظاہرہ نظر نہیں آتا ہے۔‘‘
محمد ضیا الدین کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس بارے میں ایک متوازن حکمت عملی اپنانی چاہیئے کیونکہ خبروں کو روکا نہیں جا سکتا اور خبروں کو روکنے کی صورت میں منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ممتاز قادری کے حامیوں کی اتوار کی شام اسلام آباد میں داخل کے بعد پولیس سے جھڑپ ہوئی تو میڈیا پر خبریں نشر کی گئیں لیکن پیر کو اس بارے میں ٹیلی ویژن چینلز پر خاموشی رہی۔
اس ساری صورت حال پر بعض مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد میڈیا سے نالاں بھی ہیں کیوں کہ اُن کا موقف ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز اُن کے احتجاج کی کوریج نہیں کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں بعض مشتعل نوجوانوں نے اتوار کی شب کراچی پریس کلب پر حملہ بھی کیا جس کی صحافی تنظیموں کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔