امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے بحیرہ جنوبی چین میں چین کی عسکری سرگرمیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں ہتھیاروں کا نظام نصب کرنے کا مقصد بیجنگ کی طرف سے ہمسایہ ملکوں پردباؤ ڈالنا ہے۔
میٹس کا یہ بیان سنگاپور میں سالانہ سکیورٹی اجلاس 'شنگریلا ڈائیلاگ فورم' میں سامنے آیا ہے۔ انہو ں نے اپنی تقریر میں " کھلے اور آزاد" بحر ہند و بحر الکاہل خطے کے لیے امریکہ کی ایک وسیع پالیسی کا خاکہ پیش کیا۔
میٹس نے کہا "بحیرہ جنوبی چین میں چین کی پالیسی ہماری آزادانہ ( نقل و حرکت کو ) فروغ دینے کی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ یہ چین کے وسیع مقاصد سے متعلق شکوک وشبہات کا اظہار کرتی ہے۔"
امریکہ کے وزیر دفاع نے اس موقع پر خاص طور پر چین کی طرف سے ویت نام کے ساحل کے قریب واقع پارسل جزیروں پر جہاز شکن اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، برقی جیمرز کو نصب کرنا اور وہا ں پر بمبار طیاروں کے اتارنے کا ذکر کیا۔
میٹس نے کہا کہ "چین کے دعوؤں کے برعکس ہھتیاروں کے اس نظام کو وہاں نصب کرنے کا براہ راست تعلق ان کا فوجی استعمال ہے جس کا مقصد ڈرانا دھمکانا اور دباؤ ڈالنا ہے۔"
اگرچہ اس وقت دنیا کی زیادہ توجہ آئندہ ہونے والی شمالی کوریا اور امریکہ کی سربراہی کانفرنس پرمرکوز ہے لیکن اس سال کے شنگریلا ڈائیلاگ کا بنیادی محور اس خطے کی مستقبل بعید اور ایسے چین سے ہےجو اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کر رہا ہے۔
چین نے اپنی سرحدوں سے باہر اپنی طاقت کو پروجیکٹ کرنا شروع کر دیا ہے جس میں زیادہ قابل ذکر بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں پر تعمیراتی اور عسکری سرگرمیاں ہیں۔
چین بحیرہ جنوبی چین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے دوسری طرف اس متنازع خطے پر ویت نام، فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور تائیوان بھی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
میٹس نے کہا کہ "امریکہ چین کے ساتھ تعمیری اور نتائج کے حامل تعلقات کو جاری رکھے گا جس میں اگر ضرورت ہوئی تو تعاون کیا جائے گا اور دوسری صورت میں جہاں ضرورت ہوئی سخت مقابلہ ہو گا۔"