رسائی کے لنکس

جنرل راحیل شریف کے این او سی کا معاملہ ایک بار پھر تنازع کا شکار


جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف۔ فائل فوٹو
جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف۔ فائل فوٹو

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو ہر صورت قانونی حوالے سے دیکھنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اختیار کو کابینہ کنٹرول کرتی ہے اور یہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے۔

پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کسی وزارت کو یا ماتحت ادارے کو جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو بیرون ملک ملازمت کیلئے این او سی جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

منگل کے روز سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران سیکٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیر الحسن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو آرمی چیف کی حیثیت سے مدت پوری کرنے کے بعد ملازمت سے سبکدوشی پر سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی افواج کی سربراہی کرنے کیلئے وزارت دفاع اور جی ایچ کیو نے این او سی جاری کیا تھا۔

تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کسی وزارت یا ماتحت ادارے کو این او سی جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ اختیار صرف وفاقی کابینہ کے پاس ہے جس نے کوئی این او سی جاری نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ نئی آنے والی حکومت کو بھجواتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھے اور پھر عدالت کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری اہلکاروں کو بیرون ملک ملازمت کیلئے این او سی وفاقی حکومت جاری کرتی ہے اور قانونی اعتبار سے اس کی منظوری وفاقی کابینہ دیتی ہے۔ اٹارنی جنرل سیکٹری دفاع کے بیان کے بعد عدالت کو اس بارے میں قانونی صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے۔

سیکٹری دفاع نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) احمد شجاع پاشا کے حوالے سے عدالت کو بتایا کہ اُنہوں نے وزارت دفاع کے ایک خط کے جواب میں یہ کہا ہے کہ فی الوقت وہ بے روزگار ہیں۔

گزشتہ برس اُس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اسلامی ممالک کی افواج کی سربراہی کیلئے جنرل راحیل شریف کو این او سی اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر وزارت دفاع نے جاری کیا تھا۔

تمام فریقین کا جواب سننے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وفاقی حکام کو حکم دیا کہ وہ نواز شریف کے دور میں ہونے والے اس فیصلے کو وفاقی کابینہ میں پیش کریں اور وفاقی کابینہ این او سی کی منظوری یا نا منظوری پر حتمی فیصلہ کرے۔

اٹارنی جنرل نے دوہری شہریت کے حوالے سے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق 19 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کا معاہدہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ 19 ممالک کے ساتھ معاہدہ کو 99 کر دیا گیا۔ دوہری شہریت والوں پر وہی قدغن ہونی چاہیے جو غیرملکیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر پارلیمنٹرینز پر دوہری شہریت کی پابندی ہے تو دیگر اداروں پر بھی ہونی چاہیے۔ سرکاری افسران بیرون ملک پوسٹنگ کرواتے اور شہریت حاصل کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شہریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آ کر ملک میں نوکری کرتے ہیں۔ ایسے افسران بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں اور ان کے بچوں کی فیس بھی یہاں سے جاتی تھی جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بیرون ملک شفٹ ہو جاتے ہیں اور پنشن پاکستان سے وصول کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو ہر صورت قانونی حوالے سے دیکھنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اختیار کو کابینہ کنٹرول کرتی ہے اور یہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے۔

اٹارنی جنرل اور سیکٹری دفاع نے یہ معاملہ آئندہ وجود میں آنے والی کابینہ میں پیش کرنے کیلئے وقت دینے کی استدعا کی جس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔

XS
SM
MD
LG