سال برائے 2010ء کا ادب کا انعام پیرو میں پیدا ہونے والے قلم کار ماریو ورگاس یوسانے جیتا۔ وہ 1990 ء کے بعد سے یہ انعام جیتنے والے پہلے لاطینی امریکی ہیں۔ 74 سالہ لوسامتعدد ناول ، مضامین ، ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ صدارتی الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ جب انعام کا اعلان ہواتو وہ اس وقت نیویارک میں تھے۔
سٹاک ہوم میں نوبیل کمیٹی کے پیٹر انگلنڈ نے انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ماریو ورگاس یوسا میں ایک داستان گو کی خداد داد صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب کا نوبیل انعام برائے 2010 پیرو کے مصنف یوسا کو اپنی تحریروں میں طاقت کے ڈھانچوں کا نقشہ کھینچنے اورانفرادی سطح پر کی جانے والی مزاحمت ،انقلاب اور شکست کی مؤثر تصویر کشی پر دیا جارہاہے۔
74سالہ ورگاس یوسا، وہ پہلے لاطینی امریکی یا ہسپانوی قلم کار ہیں جنہوں نے 1990ء میں میکسیکو کے مصنف اوکٹاویرو پز کے بعد نویبل انعام جیتاہے۔ وہ 30 سے زیادہ ناول، ڈرامے اور مضامین لکھ چکے ہیں جن میں The Feast of the Goat، اور Aunt Julia اور Scriptwriter جیسی مشہور تصانیف بھی شامل ہیں۔
انعام کے اعلان کے بعد نیویار ک میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انعام لاطینی امریکی ادب کی حیثیت کو تسلیم کرنے اور اس زمانے کے اس خطے اسٹیریو ٹائپ معاشرے کو، جب انہوں نے لکھنا شروع کیاتھا، بہتر طورپر سمجھنے کا اظہار بھی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ لاطینی امریکہ کوایک ایسی سرزمین کے طورپر دیکھا جاتا تھا جہاں صرف ڈکٹیٹر ، انقلاب پسند اورسانحات ہی جنم لیتے رہے ہیں۔ اور اب ہم جانتے ہیں کہ لاطینی امریکہ ، فن کار، موسیقار ، مصور ، مفکر اور ناول نگار بھی پیدا کرسکتا ہے۔
ورگاس یوسا ایک قلم کاراور شہری کی حیثیت سے ہمیشہ سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ بائیں بازو کی سیاست سے آزاد مارکیٹ کے نظریات کی جانب منتقلی کے بعد ، انہوں نے 1990ء میں پیرو کی صدارت کے انتخابات میں حصہ لیا مگر ناکام رہے۔ پیرو کے سابق صدر الخاندرو تولیدو بھی اپنے دوست ورگاس لوسا کی پریس کانفرنس کے موقع پر نیویار ک میں موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ماریو ورگاس یوساایک بہت ہی زرخیر قلم کار ہیں ، اور دنیا میں، بالخصوص لاطینی امریکہ میں آزادی اور جمہوریت کے ایک محافظ ہیں۔ اور ان کا موجودہ اعزاز ، جو کچھ وہ کررہے ہیں، اسے تسلیم کرنا ہے۔
ورگاس یوسا جزوقتی طورپر سپین میں رہتے ہیں جہاں وہ میڈرڈ سے شائع ہونے والے ہسپانوی زبان کے ایک روزنامےایل پائس کے لیےاپنا ایک مقبول کالم لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاست کو لازمی طور پر ادب کا حصہ ہونا چاہیے ۔۔ جیسا کہ وہ زندگی کا حصہ ہے۔۔۔ لیکن جب وہ لکھتے ہیں تو اس کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں بنیادی طورپر ایک قلم کار ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ مجھے یاد رکھا جائے اور اگر مجھے یاد رکھاجاتا ہے تو اس کی وجہ میری تحریریں اور میرا کام ہوگا۔ دوسری جانب میں ایک شہری بھی ہوں اور میرے سیاسی نظریات ہیں ، اور میرا خیال ہے کہ سیاسی نظریات رکھنا صرف قلم کاروں کا ہی نہیں بلکہ ہر شخص کی اخلاقی ذمے داری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریتوں اور زندہ سے بھرپور ادبی ثقافت رکھنے والے ایک خطے کے طورپر لاطینی امریکہ کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں۔ وہ کولمبیا کے ناول نگار گاربریل گاریسا مارکزکے بعد، جنہوں نے 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام جیتاتھا، جنوبی امریکہ کی پہلی اہم شخصیت ہیں ۔