پاکستان میں آم کے پیداواری شعبے میں امریکی اعانت کی بدولت گزشتہ سال اس پھل کی برآمدات میں 68 فیصد اضافے سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے کاشت کاروں کو 43 لاکھ ڈالر سے زائد کی اضافی آمدن ہوئی ہے۔
یہ اعداد و شمار اور اس شعبے میں دیگر کامیابیوں کی تفصیلات ’نئی برآمدی منڈیوں تک رسائی‘ کے عنوان سے اسلام آباد میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں پیش کی گئیں۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی یعنی ’یو ایس ایڈ‘ کی نائب مشن ڈائریکٹر کیرن فری مین نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ملک کی حکومت اور عوام پاکستان میں آم کے پیداواری شعبے کی ترقی کے لیے معاونت جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔
’’پاکستان میں ترقی پسند کاشت کاروں اور کاروباری شخصیات کو جدت اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ بہترین تدابیر اپنانے، ایک دوسرے کے مشاہدات سے استفادہ کرنے اور مستعدی کے ساتھ ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کیرن فری مین نے کہا کہ یہ اقدامات کرکے پاکستان، خصوصاً صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں آم کے پیداواری شعبے کی بھرپور صلاحیت کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کانفرنس کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آئیں آج اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس شعبے سے متعلق نئے اہداف کا تعین اور اُن کو مل کر حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔‘‘
امریکی حکومت اپنے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے توسط سے سال 2009ء سے پاکستان میں ’مینگو پروگرام‘ پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد آموں کی پیداوار سے ان کی فروخت تک مختلف مرحلوں میں پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کرنا ہے۔
اس منصوبے کے تحت جزوی مالی امداد کی فراہمی کی بنیاد سندھ اور پنجاب میں 13 منتخب باغات میں جدید تنصیبات کا قیام عمل میں لیا جا چکا ہے جہاں آم کو برآمد کے لیے تیار کرنے کے علاوہ اس کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے سرد خانوں کی جدید سہولتیں موجود ہیں۔ مزید دو باغات میں ایسی تنصیبات رواں سال کام شروع کر دیں گی۔
یو ایس ایڈ کے منصوبے سے مستفید ہونے والے لطف آباد مینگو فارمز، ملتان کے مالک محمد طارق خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی آم کی اقسام، سندھڑی اور چونسا، دنیا بھر میں بہترین سمجھی جاتی ہیں۔
’’ہمارا مسئلہ یہی تھا کہ پراسیسنگ کی سہولت نا ہونے کی وجہ سے آم کی شیلف لائف کم ہے … لیکن امریکی معاونت سے بنیادی ڈھانچے میں پائی جانے والی یہ کمی دور ہو گئی ہے اور اب یورپ، امریکہ اور کسی بھی دوسرے ملک کی ویلو ایڈڈ مارکیٹوں کو (آم کی) اچھی برآمدات کی جا سکتی ہیں۔
یو ایس ایڈ کا منصوبہ ترقی پسند پاکستانی کاشت کاروں کو بہترین معیار کا پھل اس کی اچھی قیمت ادا کرنے والی عالمی منڈیوں کو برآمد کرنے اور معیار کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اسناد کے حصول میں بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔
منصوبے کی وجہ سے اب تک 575 افراد کو روزگار میسر آ چکا ہے اور توقع ہے کہ رواں سال آموں کے سیزن تک یہ تعداد 1,000 سے تجاوز کر جائے گی۔
پھلوں کا بادشاہ کہلانے والے آم کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا شمار بڑے ملکوں میں ہوتا ہے، لیکن 2009ء میں 15 لاکھ ٹن سے زائد فصل ہونے کے باوجود اس کا صرف پانچ فیصد ہی برآمد کیا جا سکا۔
پاکستان میں سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ آموں کی پیداوار اور اس کی برآمدات میں اضافے کی کوششوں کے علاوہ اس پھل سے تیار ہونے والی ’ویلو ایڈڈ‘ مصنوعات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سیکرٹری تجارت ظفر محمود کے بقول اگر کوالٹی پر کوئی سمجھوتا نا کیا جائے تو پاکستانی آم یورپ اور امریکہ سمیت دیگر بین الاقوامی منڈیوں میں بھی پسندیدہ ترین پھل بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ظفر محمود کہتے ہیں کہ آم کے فارمز پر بہتر سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ نئے باغات اور موجودہ درختوں کو نئے پودوں سے تبدیل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔