ملالہ یوسف زئی کا خاندان جمعرات کے روزپاکستان سے برمنگھم پہنچا،جہاں انھوں نے اسی رات سٹی کوئین الزبتھ ہاسپیٹل میں اپنی بیٹی سے ملاقات کی ۔
ملالہ کے والد ضیا الدین ،والدہ تورپکائی اور اپنےدونوں بیٹوں اتل خان اور خوشحال خان کے ہمراہ اسپتال پہنچے۔ اگلے روز انھوں نے اسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،' جب کل رات ہم نے ملالہ کو دیکھا تو ہماری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور ہم سب ملکر رونے لگے مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔'
ملالہ کے والد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی خصوصی دیکھ بھال پر اسپتال کی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔ ملالہ کا صحیح علاج، صحیح وقت اور صحیح جگہ پر ہو رہا ہے۔ وہ بہت تیزی سے صحت یاب ہو رہی ہے ۔ وہ چل سکتی ہے ۔اس نے ہم سے بات کی اور ساتھ ہی مسکرا رہی تھی ہم بہت خوش ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملالہ کا برطانیہ آنا اوریہاں کے اسپتال میں علاج ہونا میری اور میری فیملی کے لیے ایک معجزے سے کم نہیں ۔
ملالہ پر قاتلانہ حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 9 اکتوبر دوپہر ساڑھے بارہ بجے جب ملالہ اسکول سے واپس گھر آرہی تھی تو دو حملہ آوروں نے ڈاٹسن وین کا راستہ روک لیا اور ڈرائیور کی کنپٹی پر پسٹل رکھ دی ۔ جبکہ دوسرے آدمی نے وین میں جا کر لڑکیوں سے پوچھا کہ تم میں ملالہ کون ہے۔ اس کے بعد اس نے ملالہ کی بائیں آبرو سے اوپر سر پرگولی ماری جو کہ سر سے پیچھے کندھے تک چلی گئی ۔ نہتی کم عمر بچی پر قاتلانہ حملے کی ساری دنیا نے سخت لہجے میں نہ صرف مذمت کی بلکہ ان کی بیٹی اور اس کے کاز( امن اور تعلیم) کو سپورٹ کیا،اور اسکی ذندگی کے لیے دعائیں کی ،وہ اب صرف میری ہی بیٹی نہیں بلکہ سب کی بیٹی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ' جب ملالہ گری تو پورا پاکستان کھڑاہوا اور ساری دنیا جاگ گئی'۔
ملالہ سے اپنی ملاقات کے بارے میں انھوں نے کہا ،'میری پاکستان میں ملالہ سے فون پر بات ہوئی تو اس نے مجھے تاکید کی کہ میں اسکی نویں جماعت کی کتابیں ضرور ساتھ لاؤں تاکہ وہ واپس سوات جا کر امتحان دے سکے ۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی والدہ سے اپنی دونوں سہیلیوں شازیہ اور کائنات کی خیریت بھی دریافت کی ۔ آخر میں ضیا الدین یوسف زئی نے تمام میڈیا ، اسپتال کی انتظامیہ،پاکستانی گورنمنٹ اور برطانوی گورنمنٹ کا شکریہ ادا کیا۔
ملالہ کے معالج ڈاکٹر روسر نے بتایاکہ اپنے خاندان سے ملاقات کے وقت ملالہ کافی تھکی ہوئی تھی، مگر وہ اپنے گھر والوں سے ملکر خوش نظرآرہی تھی۔ انھوں نے مزید کہا اب وہ معمولی سہارے کی مدد سے چل سکتی ہے اور ٹھیک سے کھانا کھا سکتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکی یاداشت متاثر نہیں ہوئی ۔
ملالہ کی ایک سرجری ابھی باقی ہے جو اس کے مکمل صحت یاب ہونے پر کی جا سکے گی، جس میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں ۔
ملالہ کے والد ضیا الدین ،والدہ تورپکائی اور اپنےدونوں بیٹوں اتل خان اور خوشحال خان کے ہمراہ اسپتال پہنچے۔ اگلے روز انھوں نے اسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،' جب کل رات ہم نے ملالہ کو دیکھا تو ہماری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور ہم سب ملکر رونے لگے مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔'
ملالہ کے والد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی خصوصی دیکھ بھال پر اسپتال کی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔ ملالہ کا صحیح علاج، صحیح وقت اور صحیح جگہ پر ہو رہا ہے۔ وہ بہت تیزی سے صحت یاب ہو رہی ہے ۔ وہ چل سکتی ہے ۔اس نے ہم سے بات کی اور ساتھ ہی مسکرا رہی تھی ہم بہت خوش ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملالہ کا برطانیہ آنا اوریہاں کے اسپتال میں علاج ہونا میری اور میری فیملی کے لیے ایک معجزے سے کم نہیں ۔
ملالہ پر قاتلانہ حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 9 اکتوبر دوپہر ساڑھے بارہ بجے جب ملالہ اسکول سے واپس گھر آرہی تھی تو دو حملہ آوروں نے ڈاٹسن وین کا راستہ روک لیا اور ڈرائیور کی کنپٹی پر پسٹل رکھ دی ۔ جبکہ دوسرے آدمی نے وین میں جا کر لڑکیوں سے پوچھا کہ تم میں ملالہ کون ہے۔ اس کے بعد اس نے ملالہ کی بائیں آبرو سے اوپر سر پرگولی ماری جو کہ سر سے پیچھے کندھے تک چلی گئی ۔ نہتی کم عمر بچی پر قاتلانہ حملے کی ساری دنیا نے سخت لہجے میں نہ صرف مذمت کی بلکہ ان کی بیٹی اور اس کے کاز( امن اور تعلیم) کو سپورٹ کیا،اور اسکی ذندگی کے لیے دعائیں کی ،وہ اب صرف میری ہی بیٹی نہیں بلکہ سب کی بیٹی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ' جب ملالہ گری تو پورا پاکستان کھڑاہوا اور ساری دنیا جاگ گئی'۔
ملالہ سے اپنی ملاقات کے بارے میں انھوں نے کہا ،'میری پاکستان میں ملالہ سے فون پر بات ہوئی تو اس نے مجھے تاکید کی کہ میں اسکی نویں جماعت کی کتابیں ضرور ساتھ لاؤں تاکہ وہ واپس سوات جا کر امتحان دے سکے ۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی والدہ سے اپنی دونوں سہیلیوں شازیہ اور کائنات کی خیریت بھی دریافت کی ۔ آخر میں ضیا الدین یوسف زئی نے تمام میڈیا ، اسپتال کی انتظامیہ،پاکستانی گورنمنٹ اور برطانوی گورنمنٹ کا شکریہ ادا کیا۔
ملالہ کے معالج ڈاکٹر روسر نے بتایاکہ اپنے خاندان سے ملاقات کے وقت ملالہ کافی تھکی ہوئی تھی، مگر وہ اپنے گھر والوں سے ملکر خوش نظرآرہی تھی۔ انھوں نے مزید کہا اب وہ معمولی سہارے کی مدد سے چل سکتی ہے اور ٹھیک سے کھانا کھا سکتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکی یاداشت متاثر نہیں ہوئی ۔
ملالہ کی ایک سرجری ابھی باقی ہے جو اس کے مکمل صحت یاب ہونے پر کی جا سکے گی، جس میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں ۔