بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں پولیس کی جانب سے ایک وکیل پر تشدد کے واقعے کو اسلاموفوبیا کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مدھیہ پردیش پولیس کے کچھ اہلکاروں نے مارچ میں ایک غیر مسلم وکیل کی بری طرح پٹائی کی تھی۔ وکیل نے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔
وکیل کا کہنا ہے کہ پولیس ان پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ چوں کہ تمھارے داڑھی ہے، اس لیے مسلمان سمجھ کر تمھاری پٹائی کی گئی تھی۔ ان کے بقول پولیس نے معافی نامہ جاری کرنے کا بھی کہا ہے۔
وکیل دیپک بندیلے 23 مارچ کو بغرض علاج ایک سرکاری اسپتال جا رہے تھے جب پولیس اہلکاروں نے انہیں راستے میں روک کر گھر واپس جانے کے لیے کہا۔ ان دنوں بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے سخت پابندیاں عائد تھیں۔
وکیل نے کہا کہ وہ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور انہیں دوا کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے اسپتال وہ جا رہے ہیں۔ لیکن پولیس والوں نے جواباً ان کی پٹائی شروع کر دی۔
جب انہوں نے بتایا کہ وہ وکیل ہیں اور اس رویے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے، تو انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اس دوران ان کے کان سے خون بہنے لگا تھا۔
انہوں نے 24 مارچ کو سپرٹنڈنٹ پولیس اور ریاستی پولیس سربراہ سے شکایت کی اور ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے اس واقعے کی اطلاع ریاستی وزیر اعلیٰ اور سپریم کورٹ کو بھی دی تھی۔
دیپک بندیلے کے مطابق بعد ازاں 17 مئی کو چند پولیس والے ان کے گھر آئے اور ان پر کیس واپس لینے کا دباؤ ڈالنے لگے۔ ان کے بقول اہلکاروں نے یہ بھی کہا کہ انہیں پولیس کی جانب سے معافی نامہ جاری کر دیا جائے گا۔
دیپک بندیلے کا کہنا تھا کہ پولیس والوں نے یہ بھی کہا کہ یہ شناخت کی غلطی کا معاملہ ہے۔ چوں کہ تمہاری داڑھی ہے، اس لیے پولیس والوں نے مسلمان سمجھ کر پٹائی کر دی۔
دیپک بندیلے کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ فسادات کے دوران پولیس ہندوؤں کا ساتھ دیتی ہے اور مسلمانوں کو بھی اس کا علم ہے۔
دیپک بندیلے نے ایک نیوز پورٹل "دی وائر" سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے اعتراف کی آڈیو بھی سنائی ہے جس میں ایک شخص پہچاننے میں غلطی اور مسلمان سمجھ کر پیٹنے کی بات کر رہا ہے۔
اس تمام معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اس معاملے پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر' کے چیئرمین روی نائر نے کہا ہے کہ پولیس کے محکمے میں اسلاموفوبیا کا ماحول بہت پہلے سے موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے روی نائر کا کہنا تھا کہ جب سے مرکز میں دائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام معاملے کے بعد ایک پولیس والے کو معطل کر دیا گیا ہے۔ لیکن معطلی سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس اہلکار کے خلاف حملہ کرنے اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور ملازمت سے برطرف کرنا چاہیے۔ ورنہ وہ پھر بحال ہو جائے گا اور وہی حرکتیں کرے گا۔
روی نائر نے مزید کہا کہ مختلف فسادات کی جانچ کرنے والے متعدد کمیشنوں نے پولیس میں موجود مسلم مخالف ذہنیت کو بے نقاب کیا ہے۔ لیکن آج تک ایسے پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ تقریباً دو درجن تنظیموں کے وفاق 'آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت' کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے شہریت مخالف مظاہرین کے بارے میں کہا تھا کہ ان کے کپڑوں سے ہی انہیں پہچانا جا سکتا ہے۔ لہٰذا داڑھی کی وجہ سے ایک ہندو وکیل کو مسلمان سمجھا گیا اور اس کی پٹائی کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پورے ملک کی پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیز میں مسلم مخالف ذہنیت کے لوگ موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنی سوچ کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بقول جب سے مرکز میں دائیں بازو کی حکومت آئی ہے، ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور وہ کھل کر یہ باتیں کرنے لگے ہیں۔
نوید حامد نے مزید کہا کہ مدھیہ پردیش کی حکومت کو چاہیے کہ ایسے پولیس والوں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ پوری دنیا میں ایک پیغام جائے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں آج بھارت کے لیے یہ رائے بن رہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں اور ان سے امتیازی سلوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ریاستی حکومت مذکورہ پولیس والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اس سے ایک اچھی مثال سامنے آئے گی۔