رسائی کے لنکس

غزہ: اپنے اعضاء بچائیں یا جان؟ زخمیوں کے لیے زندگی کا سب سے دشوار فیصلہ


 غزہ کے دیر البلاح علاقے میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے ایک فلسطینی کو نصر ہسپتال لایا جا رہا ہے ، فوٹو اے پی 17 اکتوبر 2023
غزہ کے دیر البلاح علاقے میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے ایک فلسطینی کو نصر ہسپتال لایا جا رہا ہے ، فوٹو اے پی 17 اکتوبر 2023

"آپ اپنی بائیں ٹانگ کٹوائیں یا پھر اپنی جان کھونے کا خطرہ مول لیں"۔ یہ تھا وہ سخت فیصلہ جو غزہ میں الاقصیٰ شہدا اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے 22 سالہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹ شائیمہ نبیحان کو کرنے کے لیے کہاتھا۔ فضائی حملے میں زخمی ہونے کے بعد سے ان کی ٹانگ میں شدید انفکیشن تھا۔۔۔۔ اور پھر نبیحان کو زندگی بچانے کے لیے اپنی ایک ٹانگ کٹوانے کا انتہائی مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔

شائیمہ نبیحان غزہ کے ان ساڑھے 54 ہزار زخمیوں میں شامل ہیں جن میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے ہاتھ یا پیر کاٹے جا چکے ہیں اور باقی ماندہ زخمیوں میں سے اکثر کو اپنی جا ن بچانے کے لیے اپنے اعضا کاٹنے سے متعلق سخت فیصلوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

غزہ میں زخمیوں کے اعضاء کاٹنا عام ہے

عالمی ادارہ صحت اور حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے کہا ہے کہ اسرائیل ۔حماس جنگ کے دوران جسے اب بارھوا ں ہفتہ شروع ہو گیا ہے ، زخمیوں کے جسمانی اعضا کا کاٹ دیا جانا عام ہو گیا ہےلیکن اس کے صحیح اعدادو شمار فراہم نہیں کیے جاسکتے ۔

حال ہی میں دیر البلاح اسپتال میں ایسے درجنوں زخمی داخل کیے گئے ہیں جن کے ہاتھ یا پیرکاٹے جا چکے ہیں اور وہ علاج اور بحالی کے مختلف مراحل میں ہیں۔

خان یونس ہسپتال میں ایک زخمی بچے کا علاج ہورہا ہے، فوٹو اے ایف پی 20 دسمبر 20233
خان یونس ہسپتال میں ایک زخمی بچے کا علاج ہورہا ہے، فوٹو اے ایف پی 20 دسمبر 20233

کیااعضاء​ کو کٹنے سے بچایا جا سکتا ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ واقعات میں مناسب علاج سے ان کے اعضا کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن اسرائیل کے شدت اختیار کرتی ہوئی فضائی اور زمینی کارروائیوں کے باعث جنگ کے کئی ہفتوں کے بعد غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے صرف 9 میں کام ہو رہا ہے ۔

وہ سب اسپتال جنگ کے نتیجے میں مریضوں اور زخمیوں سے بھرے ہیں ۔ طبی عملے کے پاس علاج کی بہت محدود سہولیات ہیں اور سرجری کے بنیادی آلات تک کا فقدان ہے۔

جب کہ بہت سے زخمی اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں کی وجہ سے ماندہ اسپتالوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔

رفح بارڈر کراسنگ پر ایک فلسطینی بچہ ایک ایمبولینس سے اترتے ہوئے بیساکھیاں استعمال کر رہا ہے، فوٹو اے ایف پی 25 دسمبر 2023
رفح بارڈر کراسنگ پر ایک فلسطینی بچہ ایک ایمبولینس سے اترتے ہوئے بیساکھیاں استعمال کر رہا ہے، فوٹو اے ایف پی 25 دسمبر 2023

سرجنوں کی شدید کمی

ڈبلیو ایچ او کے ایک عہدے دار شان کیسی نے، جنہوں نے حال ہی میں غزہ کے متعدد اسپتالوں کا دورہ کیا ہے، بتایا کہ ویسکولر سرجنز کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے جن زخمیوں کے اعضا کو بچایا جا سکتا ہے، انہیں بھی کاٹنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بہت سے واقعات میں تو زخموں کی شدید نوعیت کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے کہ کچھ اعضا کو بچانا ممکن نہیں ہوتا ایسے میں ان کو جلد از جلد کاٹ کر الگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

کیسی نے گزشتہ ہفتے ایک نیو ز کانفرنس میں کہا، جن لوگوں کے اعضاء میں انفیکشن ہو جاتا ہے اگر وہ دور نہ ہو تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ ہم نے وہاں ایسے مریض دیکھے ہیں جو انفیکشن میں مبتلا تھے۔

نصر ہسپتال میں ایک زخمی ، فوٹو اے پی 17 دسمبر 2023
نصر ہسپتال میں ایک زخمی ، فوٹو اے پی 17 دسمبر 2023

غزہ میں جنگ کی صورت حال

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1200 لوگوں کی ہلاکت ، اور 240 لوگوں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد غزہ پر اسرائیلی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 20 ہزار 6 سو فلسطینی ہلاک اور ہو چکے ہیں جن میں لگ بھگ 70 فیصد عورتیں اور بچے تھے ۔

اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑائی جاری رکھے گا جب تک حماس کو تباہ نہیں کردیتا۔

انفیکشنز کے خطرات میں اضافہ

ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز کے ایک آرتھو پیڈک سرجن جوردل فرینکوئس نے کہا ہے کہ جنگ زدہ غزہ میں آپریشن کے بعد انفیکشنز کا خطرہ بہت زیادہ ہے ۔

وہ نومبر میں غزہ کے جنوبی قصبے خان یونس میں تعینات تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں پانی کی کمی اور مریضوں سے بھرے اسپتالوں میں، جہاں ہزارو ں بے گھر شہریوں نے بھی پناہ لے رکھی ہے ، عمومی افرا تفری کی وجہ سے صحت وصفائی صورت حال بہت خراب ہے ۔

انہوں نے ایک نوعمر لڑکی کے بارے میں بتایا جس کی ٹانگیں کچلی جا چکی تھیں جسے فوری طور پر سرجری کے ذریعے الگ کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہاں دوسرے انتہائی شدید زخمیوں کی وجہ سے اس کی سرجری فوری طو ر پر نہ ہو سکی اور وہ انفیکشن اور بیکٹیریا کی وجہ سے خون میں زہر پھیلنے کیے نتیجے میں اسی رات بعد میں انتقال کر گئی۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اعضاء​ کے کاٹے جانے کے بعد کی مشکلات

سرجن جوردل فرینکوئس نے غزہ سے رخصت ہوتے ہوئے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہاں روزانہ بچاس زخمی آتے ہیں اور ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس کو بچائیں اور کس کو چھوڑ دیں۔

غزہ میں اعضاء کے کاٹ دیے جانے کے بعد لوگوں کو دوبار فعال زندگی گزارنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں۔

الاقصیٰ شہدا اسپتال میں اپنے بستر سے بات کرتے ہوئے 22 سالہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹ شائیمہ نبیحان نے کہا ،" میری پوری زندگی بدل چکی ہے ۔ میں ایک قدم بھی چلنا چاہوں یا کہیں بھی جانا چاہوں تو مجھے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔"

نباہین کہتی ہیں ،" اب میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں غزہ سے باہر نکل سکوں اور میرے پاس جو کچھ بچا ہے اسے بچالوں اور ایک مصنوعی ٹانگ کے ساتھ اپنی زندگی نارمل طریقے سے گزاروں ۔"

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG